69

موٹاپے کے سبب ذہنی امراض کی شرح مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ کیوں؟

اسلام آباد ؛ دنیا بھر میں موٹاپے یا فربہ پن کا شکار تقریباﹰ 670 ملین انسانوں میں بہت بڑی تعداد نوجوان خواتین کی ہے۔ آسٹریا میں کی گئی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ مرض مردوں اور خواتین میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بننے کے حوالے سے بہت مختلف اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ویگووی موٹاپے کے خلاف’جادوئی گولی‘نہیں، ڈبلیو ایچ اوطبی نفسیاتی تحقیق کے شعبے کے ایک جریدے اسپیشلسٹ جرنل ٹرانزیشنل سائیکیاٹری میں شائع ہونے والے ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹاپا ذہنی طور پر خواتین اور مردوں کو کافی مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔اس ریسرچ کے دوران میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے محققین نے 1997 سے لے کر 2014 تک آسٹریا کے مختلف ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جسم فربہ ہونے سے میٹابولک اور دل کے امراض کے علاوہ ذہنی امراض کا شکار ہو جانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے اور ایسے متاثرین میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔یونیورسٹی آف ویانا کی تحقیق ہے کیا؟میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے شعبہ انٹرنل میڈیسن سے منسلک ریسرچر میشائل لوئٹنر نے اس تحقیق کی سربراہی کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس امر سے تو سبھی واقف ہیں کہ موٹاپے سے ذہنی امراض کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ موٹاپے اور ذہنی امراض کے علاج کے لیے جو ادویات استعمال کی جاتی ہیں، ان کے ضمنی اثرات کے طور پر دوسری بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اس تحقیق سے پہلے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ پہلے جسم فربہ پن کا شکار ہوتا ہے یا ذہنی امراض کا ایک نتیجہ موٹاپا بھی ہوتا ہے۔بچوں کی صحت کا مسئلہ، کھانے کے اشتہارات پر پابندی کا منصوبہڈاکٹر میشائل لوئٹنر نے بتایا کہ اس پیچیدہ باہمی ربط کو سمجھنے کے لیے ان کی تحقیقی ٹیم نے ایک نیا طریقہ استعمال کیا۔ اس طریقے سے یہ جاننے میں مدد ملی کہ ذہنی امراض سے قبل جسم موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے مریضوں میں نشہ آور مادوں کے استعمال کا غیر معمولی تناسب بھی نوٹ کیا، جو خواتین کی نسبت مردوں میں زیادہ تھا۔نتائج کیا بتاتے ہیں؟ڈاکٹر میشائل لوئٹنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹاپے کا شکار 16.6 فیصد مرد نکوٹین کے نشے کے عادی تھے جبکہ فربہ خواتین میں یہی شرح 8.58 فیصد تھی۔لیپیڈیما کا تعلق نہ موٹاپے سے نہ ناقص غذا سےاسی طرح 13 فیصد فربہ خواتین ڈپریشن کا شکار تھیں جبکہ موٹاپے سے بچی رہنے والی خواتین میں سے صرف 4.8 فیصد میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں۔ دوسری جانب فربہ مردوں میں سے 6.16 فیصد ڈپریشن کا شکار تھے جبکہ غیر فربہ مردوں میں یہی تناسب 3.21 فیصد دیکھا گیا۔ یعنی فربہ خواتین میں ڈپریشن کی شرح مردوں میں ایسی شرح کے دو گنا سے بھی زیادہ تھی۔ڈاکٹر لوئٹنر کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں نوجوان خواتین میں موٹاپے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کو کنٹرول کرنے کے لیے بروقت سکریننگ اور فربہ پن سے متعلق آگہی پھیلانا اشد ضروری ہے۔پاکستانی خواتین میں موٹاپے کا رجحان کتنا؟پاکستان کی ڈاکٹر شگفتہ فیروز ایک معروف ماہر غذائیات ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ دنیا کے 194 ممالک میں فربہ افراد کی تعداد نارمل سے کہیں زیادہ ہے۔اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 65 واں ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر 15 سے 40 برس تک کی عمر کی لڑکیاں اور خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ڈاکٹر شگفتہ نے بتایا کہ جسمانی بلوغت کو پہنچنے پر ماہواری کے آغاز کے ساتھ ہی نسوانی جسم میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے لڑکیوں کے جسم فربہ ہونے لگتے ہیں۔ پھر شادی اور بچوں کی پیدائش کے ساتھ بھی مسلسل وزن بڑھتا ہے۔نہ ڈائٹنگ نا ورزش اور پھر بھی وزن کم۔ کیسے؟انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں طرز زندگی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ خواتین کو خود پر توجہ دینے یا اپنا وزن کنٹرول کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ اسی لیے پاکستانی خواتین میں فربہ پن کا تناسب مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔خواتین میں موٹاپے سے ذہنی امراض کیسے جنم لیتے ہیں؟ڈاکٹر شگفتہ کے مطابق موٹاپے سے ذہنی امراض مثلاﹰ ڈپریشن اور اینگزائٹی کا شکار ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ فربہ انسانوں کا اپنے بارے میں تاثر منفی اور کمزور ہوتا ہے۔وہ اپنے جسمانی خدوخال اور ظاہر سے متعلق منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور یہ رجحان خواتین میں مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔کیا موٹی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں؟ڈاکٹر شگفتہ نے بتایا کہ پندرہ سال سے زائد عرصے پر محیط اپنی پیشہ وارانہ خدمات کے دوران انہوں نے بار بار دیکھا کیا کہ خواتین کے بر عکس مردوں کو اتنی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو کیسے دکھائی دیتے ہیں۔’’یہ کوشش عموماﹰ خواتین کی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پر کشش دکھائی دیں، جس میں موٹاپا ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔‘‘کیٹو ڈائیٹ: جلد وزن کم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہےپاکستان میں موٹاپے سے متعلق آگہی کتنی؟ڈاکٹر شگفتہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بہت سے ممنوعہ موضوعات اور فرسودہ ٹیبوُز میں جکڑا ہوا ہے۔وہاں ‘باڈی شیمنگ‘ بالکل عام سی بات ہے، جس کے باعث فربہ افراد احساس کمتری اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ”چونکہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسے ذہنی امراض کو بھی پاگل پن ہی سمجھا جاتا ہے، اس لیے صورتحال بڑی پیچیدہ ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فربہ خواتین اپنے نفسیاتی مسائل چھپانے کی کوشش میں مزید پیچیدہ مسائل کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔‘‘جرمن بچے سال بھر کی چینی سات ماہ میں کھا گئے: ماہرین پریشانغذائی امور کی ماہر ڈاکٹر شگفتہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کیے بغیر موٹاپے کے خلاف مختلف ادویات کا استعمال طبی اور جسمانی ردعمل کا باعث بنتا ہے اور یوں موٹاپا اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ ”اسی طرح کسی ماہر غذائیات سے مشورے کے بغیر ڈائٹنگ کی کوششیں بھی ڈپریشن اور اینگزائٹی میں اضافہ کرتی ہیں۔‘‘فربہ افراد کیوں کم جیتے ہیں؟انہوں نے تجویز دی کہ سب سے پہلے تو معاشرے میں موٹاپے اور ذہنی امراض کے درمیان تعلق سے متعلق آگاہی کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ خاص موضوعات کو ممنوعہ سمجھنے کے سماجی رویے بھی تبدیل کیے جانا چاہییں، جو مختلف طبی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کے علاج کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں بھی ویانا میڈیکل یونیورسٹی کی ریسرچ کی طرز پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں