63

پاکستان: میں سوات پولیس تھانے میں دھماکہ، 15 افراد ہلاک

اسلام آباد : پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی سوات کے شمال مغربی قصبے کبل کا ایک پولیس اسٹیشن سلسلہ وار دھماکوں سے دہل کر رہ گیا۔ اس میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور پچاس سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردانہ واقعہ نہیں ہے اور ابتدائی تفتیش کے مطابق شارٹ سرکٹ کی وجہ سے یہ دھماکے ہوئے۔سوات بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاکیہ واقعہ پیر کی رات کو تقریبا آٹھ بج کر بیس منٹ پر پیش آیا اور اطلاعات کے مطابق واقعے میں ایک پولیس افسر سمیت ہلاک ہونے والے بیشتر پولیس اہلکار ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مخصوص یہ تھانہ دھماکوں سے پوری طرح تباہ ہو گیا۔پاکستانی وادی سوات میں خودکش بم دھماکہ پانچ افراد ہلاکپولیس اسٹیشن کو ہلا کر رکھ دینے والا یہ دھماکہ ‘کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ’ (سی ٹی ڈی) کے دفتر کے احاطے میں ہوا، اس واقعے سے محض چند گھنٹے قبل ہی سی ٹی ڈی نے لکی مروت میں چھاپے کی ایک کارروائی کی تھی، جس میں تین مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے تھے۔پاکستانی وادیء سوات میں خود کُش بم دھماکہاس بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے سوات پولیس کے سربراہ شفیع اللہ گنڈا پور کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ تھانے کے ایک تہہ خانے میں شارٹ سرکٹ کے باعث یہ دھماکے ہوئے، جہاں ”دستی بم اور دیگر دھماکہ خیز مواد” رکھا گیا تھا۔مینگورہ میں خود کش دھماکہشفیع اللہ گنڈا پور نے بتایا کہ ”اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ کوئی بیرونی حملہ تھا، یا پھر خود کش بمباروں کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔”سوات میں خودکش حملہ، دو افراد ہلاکانسداد دہشت گردی کی مقامی یونٹ کے علاقائی سربراہ سہیل خالد نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ یہ دھماکہ دہشت گردی کی کارروائی نہیں لگتی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے سہیل خالد کا قول نقل کیا ہے کہ ”وہاں ایک اسٹور تھا جہاں ہمارے پاس بھاری مقدار میں ہتھیار موجود تھے اور ابھی تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی لاپرواہی کی وجہ سے اس میں دھماکہ ہوا ہو گا۔ پھر بھی اس حوالے سے ہمارے تمام آپشنز کھلے ہوئے ہیں۔”مالاکنڈ کے ڈی آئی جی ناصر محمود ستی نے دیر رات گئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ کسی دہشت گردانہ سرگرمی یا خودکش دھماکے کا نتیجہ نہیں تھا اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ”لاپرواہی” کا نتیجہ تھا۔انہوں نے کہا کہ دھماکہ پولیس سٹیشن کے احاطے میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ایک پرانے دفتر کے اندر ہتھیاروں کے گودادم میں ہوا۔ تاہم پولیس افسر نے کہا کہ نئے شواہد کی روشنی میں اس کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔بیس افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہدھماکے سے تھانے کی چھت پوری طرح سے تباہ ہو گئی جبکہ سی ٹی ڈی آفس اور اسٹیشن کے اندر واقع ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔دھماکے کی وجہ سے بعد میں عمارت میں آگ لگ گئی۔ سینیئر پولیس حکام کے مطابق کم از کم 20 پولیس اہلکار چھت کے نیچے پھنسے ہوئے تھے، جو دھماکے کی شدت کے باعث گر گئی۔ایک زخمی پولیس اہلکار نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ کچن کے اندر تھے اور تبھی زور دار دھماکہ ہوا جس سے عمارت پھٹ گئی۔ ”باورچی خانے کی عمارت کا ایک حصہ بھی گر گیا۔دھماکے کے بعد آگ بھی بھڑک اٹھی۔”وزیر اعظم خودکش حملے کے دعوے سے پیچھے ہٹےپیر کے روز ہونے والے اس دھماکے کے بارے میں ابتدائی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے ایک ”خودکش” حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ تاہم بعد میں انہوں نے ایک دیگر ٹویٹ میں اپنا بیان واپس لے لیا اور کہا کہ دھماکے کی نوعیت کی ابھی تک تحقیقات کی جا رہی ہیں۔جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ خطہ افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے سے قریب ہے اور شورش کا بھی شکار ہے۔ یہ پاکستانی طالبان کے ایک سابق سربراہ ملا فضل اللہ کی جائے پیدائش ہے۔ اسی علاقے میں عسکریت پسندوں نے سن 2012 میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں