38

آئین کے تحت چلنے کی ضرورت ہے‘ کوئی بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے، چیف جسٹس آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے، ہمارا فیصلہ موجود ہے جس کی اپنی طاقت ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا خطاب

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا جاتا تو یہ حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے، آئین کے تحت چلنے کی ضرورت ہے‘ کوئی بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے، آئین 90 روز میں الیکشن کا کہتا ہے تو اس پر عملدرآمد کرانا ہمارا فرض ہے، ہمارے فیصلے پر آج عمل نہیں ہوتا تو وقت ثابت کرے گا اور کل اس پر عمل کرنا پڑے گا، اللہ انصاف کے لیے جج کا انتخاب کرتا ہے، جج کے سامنے سچ اور جھوت ہو تو اسے یقین ہونا چاہیے خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
لاہور میں مینارٹی رائٹس فورم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس اے آر کار نیلیئس نے بہترین خدمات انجام دیں، جسٹس اے آر کار نیلیئس نے 23 سال کی عمر میں آئی سی ایس پاس کیا، وہ سول سروس عہدے پر تعینات ہو سکتے تھے مگر قانون وانصاف کا انتخاب کیا، جسٹس اے آر کار نیلیئس نے سپریم کورٹ کو 17 سال دیئے، جسٹس اے آر کار نیلیئس ایک اچھے قانون دان اورسادگی پسند تھے، انہیں قانون کے علاوہ دیگر بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا، جسٹس اے آر کار نیلیئس جوڈیشل سسٹم کیلئے طرہ امتیاز تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس اے آر کار نیلیئس کی زندگی ججز کیلئے مثال ہے، جسٹس اے آر کار نیلیئس جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، 1964ء میں 2 صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں، عدالت ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، پاکستان کے ہرشہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے، جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے،عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال ںے کہا کہ کم شرح خواندگی اور اجتہاد کے باعث مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے، آئین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انسانی حقوق کا نفاذ ریاست کی اولین ترجیح ہے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں