56

‘اچھا مہمان ہو تو اچھی میزبانی بھی ہوگی’، بھارتی وزیر خارجہ

اسلام آباد : بھارتی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت اور ان سے ہونے والی بات چیت کے تذکرے اب بھی جاری ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایس سی او کے اجلاس کے دوران ان کے خلاف اپنے بیانات کا دفاع کیا ہے۔گوا میں بلاول بھٹو اور بھارتی ہم منصب جے شنکر کے درمیان علیک سلیکبھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت کے دوران پاکستان کے خلاف اپنے سخت بیانات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے لیے بھارت آئے تھے، تاہم ”انہوں نے اس حوالے سے کوئی بات تک نہیں کی اور باہر پریس سے بھارتی مسائل پر ہی بات کرتے رہے۔بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت: امیدیں اور امکاناتجیسا مہمان ویسی میزبانیبھارتی وزیر خارجہ نے بلاول پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ”انہوں نے ہماری سیاست پر بات کی، کشمیر، جی 20 اور یہاں تک کہ بی بی سی کی ڈاکیومینٹری کے حوالے سے اپنے فیصلے سنائے۔ ایس سی او کے علاوہ انہوں نے ہر چیز پر بات کی۔ تو میں ایک میزبان کی حیثیت سے کیا کرتا؟ اگر میرے پاس کوئی اچھا مہمان ہو، تو میں بھی ایک اچھا میزبان ہوں۔بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے بند دروازے کھلنے کی امید؟واضح رہے کہ گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اختتام پر بھارتی وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس بلائی تھی اور اس دوران انہوں نے بڑے ہی سخت لہجے میں پاکستان پر تنقید کی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں ”دہشت گردی کا فروغ دینے والا اور دہشت گردوں کا ترجمان” کہا تھا۔پلوامہ حملے پر کشمیر کے سابق گورنر کے حیرت انگیز انکشافات کیا ہیں؟بھارتی وزیر خارجہ نے گوا میں یہ کانفرنس اس وقت کی، جب ابھی بلاول بھٹو زرداری بھارت سے واپسی پر راستے میں ہی تھے۔ اسی کے حوالے سے ان سے جب دونوں ملکوں کے رشتوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ اگر پڑوسی ”ہمارے شہر پر حملہ کرتا ہے۔۔۔ تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ رشتے معمول کے مطابق ہونے چاہیں۔بھارتی کشمیر میں جی ٹوئنٹی کے اجلاسوں کا انعقاد غیر ذمہ دارانہ فیصلہ، پاکستان انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان، ”بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں پر عمل نہیں کرتا ہے… وہ ”دہشت گردی کی حمایت اور رابطوں کو مسدود کرنے کا کام کرتا ہے۔”تاہم جے شنکر کا کہنا تھاکہ ”پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کی دشمنی میں بندھے رہنا ہمارے مفاد میں بھی نہیں ہے، کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو… لیکن ہمیں کہیں پر تو اپنی سرخ لکیر کھینچنی ہو گی۔ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششمسٹر جے شنکر نے بھارت اور ایران کے تعلقات اور چابہار بندرگاہ کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی چابہار، ”بندرگاہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔۔۔۔ چونکہ ایران پابندیوں کی زد میں ہے، اس لیے یہ کام مشکل رہا ہے۔ تاہم اس پر ہمارے درمیان مسلسل پیش رفت بھی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت چابہار بندرگاہ کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کر رہا ہے، کیونکہ ”جب تک پاکستان میں کوئی معجزاتی تبدیلی نہیں آتی، جس کی مجھے توقع بھی نہیں ہے، تب تک ہمیں وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت پڑے گی۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں