49

پوٹن کا بیلاروس میں روسی جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان

اسلام آباد : ماسکو سے ہفتہ پچیس مارچ کی رات ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صدر پوٹن نے یہ اعلان گزشتہ برس فروری میں روسی فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی اس روسی یوکرینی جنگ کے تناظر میں کیا، جس کی وجہ سے ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین کشیدگی اب مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔فیکٹ چیک: کیا پوٹن نے شی جن پنگ کے سامنے گھٹنے ٹیکے؟اس کے علاوہ انہی دنوں میں روس میں کئی تبصرہ نگار یہ اندازے بھی لگا رہے ہیں کہ روسی یوکرینی جنگ میں ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔بیلاروس کے صدر کا ‘دیرینہ مطالبہ‘روسی صدر نے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا کہ بیلاروس کے صدر آلیکسانڈر لوکاشینکو، جن کے ملک کی سرحدیں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن مشرقی یورپی ملک پولینڈ سے بھی ملتی ہیں، کافی عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آ رہے تھے کہ ماسکو اپنے ‘ٹیکٹیکل‘ جوہری ہتھیار بیلاروس میں نصب کرے۔اگر روس نے اپنے جوہری ہتھیار بیلاروس میں نصب کیے، تو یہ 1990ء کی دہائی کے وسط سے لے کر آج تک کا ایسا پہلا واقعہ ہو گا کہ ماسکو کے جوہری ہتھیار روس کی قومی سرحدوں سے باہر بھی نصب ہوں گے۔روس نے سولہ ہزار یوکرینی بچے کس طرح اغواکیے؟1991ء میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد جن چار نو آزاد ریاستوں میں سوویت جوہری ہتھیار نصب کیے گئے تھے، ان میں روس، جسے سوویت یونین کی جانشین ریاست قرار دیا جاتا ہے، یوکرین اور قزاقستان کے علاوہ بیلاروس بھی شامل تھا۔ پھر 1992ء میں ان چاروں ریاستوں کی طرف سے یہ تمام جوہری ہتھیار واپس صرف روس میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس فیصلے پر عمل درآمد 1996ء میں مکمل ہو گیا تھا۔’کوئی غیر معمولی بات نہیں‘روسی صدر پوٹن نے سرکاری ٹی وی کو بتایا، ”اس فیصلے کے بارے میں غیر معمولی بات تو کوئی بھی نہیں۔ امریکہ عشروں سے ایسا کرتا آیا ہے۔ اس نے بھی اپنے جوہری ہتھیار اپنے ریاستی علاقے سے باہر اپنے اتحادی ممالک میں نصب کیے رکھے ہیں۔‘‘پولینڈ کا یوکرین کو ایک درجن مگ 29 لڑاکا طیارے دینے کا منصوبہ بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کے ساتھ گفتگو میں ہونے والے اتفاق رائے کے حوالے سے ولادیمیر پوٹن نے کہا، ”ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے، اپنی ذمے داریوں کی نفی کیے بغیر۔میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایسا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے خود پر عائد ہونے والی ذمے داریوں کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کیے بغیر کریں گے۔‘‘تھیاروں کی تعیناتی کا وقت غیر واضح روسی صدر نے اپنے اعلان میں یہ وضاحت نہیں کی کہ روسی جوہری ہتھیار کب تک بیلاروس میں نصب کر دیے جائیں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ ‘ٹیکٹیکل‘ جوہری ہتھیاروں کی اصطلاح اس جوہری اسلحے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو کسی میدان جنگ میں مخصوص نوعیت کے عسکری نتائج کے حصول کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہو۔روس کے پورے یوکرین میں کئی شہروں پر بڑے فضائی حملے صدر پوٹن کے مطابق روس بیلاروس میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے لیے ایک تنصیب گاہ کی تعمیر کا کام یکم جولائی تک مکمل کر لے گا۔ ساتھ ہی ولادیمیر پوٹن نے یہ بھی کہا، ”ماسکو ان ہتھیاروں کی بیلاروس میں تعیناتی کے بعد بھی ان کا کنٹرول عملی طور پر منسک حکومت کو منتقل نہیں کرے گا۔باخموت پر روسی قبضے سے جنگ کا پانسہ نہیں پلٹے گا، امریکی وزیر دفاع صدر پوٹن کے اس اعلان کے بعد امریکہ کا فوری ردعمل جاننے کے لیے نیوز ایجنسی روئٹرز نے جب امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع سے رابطے کیے، تو اس رپورٹ کی اشاعت تک دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔روسی جنگی جرائم اور امریکی سینیٹرز کا مطالبہ اسی دوران روسی یوکرینی جنگ کے حوالے سے ہی امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی دونوں سے تعلق رکھنے والے اراکین سینیٹ نے صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ اس مسلح تنازعے میں روسی جنگی جرائم کے شواہد بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مہیا کیے جائیں۔یوکرین میں جنگی جرائم کی تحقیقات کیسے ہو رہی ہیں؟سینیٹ کے ان ارکان نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ امریکی کانگریس نے بائیڈن انتظامیہ کے لیے یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ وہ اس عالمی عدالت سے تعاون کرے۔ خط کے مطابق اگرچہ امریکہ خود اس بین الاقوامی عدالت کا رکن ملک نہیں ہے تاہم روسی جنگی جرائم سے متعلق کارروئی میں واشنگٹن کو اس عدالت کی عملی مدد کرنا چاہیے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکہ کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن کی مدد سے روس کے خلاف یوکرین میں جنگی جرائم کا ارتکاب کا مقدمہ کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں