5

قیادت سے محروم پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار، کارکنان رہنماؤں سے ناراض،دھڑے بندی نے جڑ پکڑنا شروع کردی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں خود کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے حوالے سے بحران میں گھِرا محسوس کررہی ہے کیونکہ سینئر رہنماؤں اور سیاستدانوں کے درمیان لڑائی نے پارٹی کو عملی طور پر ’قیادت سے محروم‘ کردیا ہے، اور دھڑے بندی نے جڑ پکڑنا شروع کردی ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران کم از کم پارٹی کے محنتی کارکنوں اور رضاکاروں کی نظروں سے دیکھیں تو ان کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے قیادت نے عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور احتجاج کے اس راستے سے بھٹک گئے ہیں جس کا انہوں نے حکم دیا تھا۔ اس کی واضح مثال بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے عمران خان کے طبی معائنے کے حوالے سے موقف کے درمیان پائی جانے والی خلیج ہے جہاں اس طبی معائنے کا منگل کو وعدہ کیا گیا تھا، پارٹی کے وفادار کارکنوں کا ماننا ہے کہ حکومت بانی پی ٹی آئی کے ذاتی معالج کو اڈیالہ جیل میں داخل ہونے سے روک کر اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔ تاہم، بیرسٹر گوہر نے ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی کہ پہلے سے ہی پمز کے ڈاکٹروں کے معائنے کا منصوبہ تھا اور انہوں نے شاید ایسا جمائما گولڈ اسمتھ کے خط کے جواب میں کہا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ان کے سابق شوہر کو اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین نے برملا کہا کہ ’سب ٹھیک ہے‘۔ پارٹی کارکنوں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کالوں کے طریقہ کار اور پھر انہیں منسوخ کرنے کے انداز سے ناراض نظر آتی ہے، خطرناک صورتحال یہ ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی زیر سربراہی مختلف دھڑے مرکزی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر پیدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مشکلات کے باوجود مظاہرین کے ایک کارواں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا تو پارٹی کے خیبر پختونخوا کے دھڑے کو اسی جذبے کا مظاہرہ نہ کرنے پر پنجاب میں موجود اپنے ساتھیوں پر تنقید کرتے دیکھا گیا۔ اسی طرح، حکومت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے ابتدائی انکار کے تناظر میں پنجاب کے دھڑے نے سب سے پہلے 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ پنجاب میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسی دھمکی نے حکومت کو اپنا لب و لہجہ نرم کرنے پر مجبور کیا اور قیادت کو اس موقع کو اپنے جو بھی مطالبات تھے انہیں پورا کرانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا تاہم منگل کو پارٹی بظاہر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور ڈاکٹر اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کرانے میں ناکام رہی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں