چیف جسٹس پاکستان نے ججز خط کیس میں کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے۔ انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم، کابینہ ہے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے وضاحت کی تین رکنی کمیٹی نے فیصلہ کیا تمام دستیاب ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بنچ سے الگ ہو گئے، فل کورٹ کے لیے دو ججز دستیاب نہیں ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، ہمیں ایک طرف یا دوسری طرف کھینچنا بھی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، ہمیں اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کیلئے مت دباؤ ڈالیں ، عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تجاویز پڑھی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان تجاویز کو اوپن کر دیتے ہیں چیف جسٹس کے حکم پر کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل نے تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حکمنامے کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں، ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کو اختیارات کی تقسیم کو مدنظر رکھنا چاہیے، ججز میں کوئی تقسیم نہیں ہے، سوشل میڈیا اور میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ ججز تقسیم ہیں، ججز کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے، اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے، ججز کیساتھ ایجنسیوں کے ممبران کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے، اگر کسی جج کیساتھ کوئی مداخلت ہوئی ہے تو وہ فوری بتائے، ججز کی شکایت کیلئے سپریم اور ہائیکورٹس میں مستقل سیل قائم کیا جائے، شکایات پر فوری قانون کے مطابق فیصلے صادر کیے جائیں ججز نے کہا کہ ایجنسیوں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے، اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز خود توہین عدالت کی کارروائی نہیں چلاتے تو ہائیکورٹ کو رپورٹ کیا جائے، ہائیکورٹ پانچ ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیکر فیصلہ کرے، اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج رپورٹ کرے تو چیف جسٹس پاکستان کے نوٹس میں لایا جائے، چیف جسٹس پاکستان اس معاملے کو دیکھیں، ایک جج شکایت کیساتھ اپنا بیان حلفی بھی دے، بیان حلفی دینے والے جج پر جرح نہیں ہو سکتی، اگر ججز کی جانب سے شکایت دی جائے تو اسے نشانہ نہ بنایا جائے، سپریم کورٹ پاکستان سے امید ہے کہ وہ پورا طریقہ کار طے کرے گی، شکایات خفیہ رکھی جائیں، عدلیہ اور حکومتی شاخوں سے بات چیت کرکے طریقہ کار طے کرنے کا سنہری موقع ہے، عدالتی احاطے میں ایجنسیوں کے نمائندگان کا داخلہ بند ہونا چاہیےجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی جج جرات دکھا دے اس کیخلاف ریفرنس آجاتا ہے، ہم خود اپنے دروازے لوگوں کیلئے نہ کھولیں تو کچھ نہیں ہوگا، ایک جج کیخلاف پرسنل ڈیٹا لیکر مہم کی گئی، آپ نے ایک جے آئی ٹی بنائی تھی عدلیہ کے لئے جس نے 31 نوٹس بھیجے، کیا اس جے آئی ٹی نے اس معاملے کو دیکھا؟ اگر نہیں تو دوبارہ یہ ملی بھگت ثابت ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ دروازہ کھولنے والے کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کریں اٹارنی جنرل نے پشاور ہائیکورٹ کے ججز کی تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ پشاور کے ججز کو ایجنسیوں نے رابطہ کیا، جب قانون کے مطابق فیصلہ کیا تو افغانستان سے دھمکیاں ملیں، کاؤنٹر ٹیراریزم سے رجوع کیا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ پشاور ہائیکورٹ کے ججز کی تجاویز میں فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے پریس کانفرنس میں کہا چھ ججز نے مس کنڈکٹ کیا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سر، ایسا کچھ کسی نے بولا ہے تو میں اسے ریجیکٹ کرتا ہوں، چھ ججوں کا خط لکھنا کوئی مس کنڈکٹ نہیں تھا۔ عدالت نے تمام فریقین سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی۔
34