56

بھٹہ مزدور کے بچوں کے نصیب میں خاک کیوں ہے؟ دل دہلا دینے والی رپورٹ

انسانوں کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ مر کر خاک ہو جانا ہے، لیکن پاکستان میں لاکھوں مزدور جو بھٹوں پر کام کرتے ہیں وہ جیتے جی خاک ہو گئے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا، کام کرنا سب خاک ہے بھٹے پر کام کرنے والا خاندان مل کر پورے دن میں 1200 سے 1500 اینٹ ہی بنا پاتا ہے اور اس کے لیے انھیں 1200 سے 1500 روپے یعنی ایک روپیہ فی اینٹ ملتا ہے اس رقم میں سے 50 فی صد قرضے کی رقم کٹ جاتی ہے اور پورے خاندان کی روز کی آمدن 500 سے 600 روپے تک ہی ہوتی ہےاسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول سے کچھ میل دور فتح جنگ روڈ پر قائم ایک بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ ان کا قرضہ 20 سال میں بھی ختم نہیں ہوا بھٹے پر کام کرنے والے ایک مزدور غلام شبیر نے 20 سال پہلے 2 لاکھ روپے قرضہ لیا تھا، ڈیڑھ لاکھ واپس کیا، اب اس کی بیٹی 18 سال کی ہے اور عید کے بعد اس کی شادی کے لیے قرضہ لینا ہے جب اس سے پوچھا گیا کہ 20 سال میں قرضہ واپس کیوں نہیں کر سکے تو اس کا جواب تھا کہ جو کمایا جب بیمار ہوئے تو سب خرچ کرنا پڑا پاکستان میں اینٹوں کے بھٹے شہروں سے دور بنائے جاتے ہیں، اس لیے صحت کی سہولیات ان سے کوسوں دور ہیں نامساعد حالات کی وجہ سے علاج معالجہ بھی نہیں کرا سکتے، جب تک بیماری بگڑ کر خطرناک نہ بن جائے علاج کے لیے گھریلو ٹوٹکے آزماتے رہتے ہیں، پھر پتا چلتا ہے کہ بیماری موت کا سبب بن گئی تو پھر کفن دفن یا میت اپنے آبائی علاقے میں پہنچانے پر پھر قرضہ لیتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں