اسلام آباد: نگراں وفاقی حکومت نے صدر ممالکت عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے متعلق کیے گئے ٹوئٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کر دیا نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ صدر مملکت نے 10 دن کے اندر بلوں پر دستخط کیے اور نہ ہی وضاحت کے ساتھ واپس بھیجے احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدر مملکت قابلِ احترام اور وفاق کے سربراہ ہیں، صدر نے دو قوانین سے متعلق بات کی ہے، پاکستان آرمی ترمیمی بل 27 جولائی کو سینیٹ نے پاس کیا جبکہ 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے منظور کیا، اس کے بعد بل 2 اگست کو صدر کو بھیجا گیا وزیر قانون نے کہا کہ آرٹیکل 75 کے تحت جب کوئی بل صدر کو بھیجا جائے تو ان کے پاس 2 اختیار ہوتے ہیں، پہلا اختیار یہ ہے کہ بل کو منظور کریں اور وہ قانون کا حصہ بن جائے، دوسرا ختیار ہے کہ تحریری اعتراضات لگا کر بل ترمیم کیلیے بھیجیں، صدر کو 10 دنوں میں ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ صدر 10 دن میں بل پر دستخط نہ کریں تو بل خود ہی نوٹیفائی ہو جاتا ہے، آئین مین 10 دن کی مدت واضح طور پر لکھی ہوئی ہے، یہ مدت اس لیے ہے کہ کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہوں، ایوان صدر سے بل واپس موصول ہی نہیں ہوئے تو اعتراض کا کیسے پتا چلے گا مرتضیٰ سولنگی نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر مملکت نے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا جس سے ایسا لگا کہ کوئی بھونچال آنے والا ہے، میں اُن سے کہنا چاہتا ہوں کوئی بھونچال نہیں آ رہا، ضروری ہے کہ قانونی نکات کی وضاحت کی جائے وزیر اطلاعات نے کہا کہ صدر آئینی عہدے پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں ہمیں جاننے کا اختیار نہیں، وزیر قانون کی وضاحت کے بعد تمام ابہام دور ہوگئے ہیں، صدر مملکت کی منشا اور خواہش کیا ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے دفتر کا ریکارڈ قبضے میں لیں تو یہ افسوسناک ہوگا، ہم قطعی ان کے دفتر کا ریکارڈ اپنے قبضے میں نہیں لیں گے، میرے علم میں نہیں وہ ٹوئٹ میں کس سے معافی مانگ رہے ہیں، اگر میں آئین اور عوام کے خلاف کام کروں تو عوام سے بھی معافی مانگوں گا۔
