73

ماہرین کو حکومت کی نیت مشکوک نظر آنے لگی

عام انتخابات کے بر وقت انعقاد پر ماہرین کو حکومت کی نیت مشکوک نظر آنے لگی اور وہ کہتے ہیں کہ چار یا چھ مہینے سے پہلے انتخابات کا انعقاد مشکل ہے انتخابات کے التوا پر چہ مہ گوئیاں پہلے ہی جاری تھیں کہ گزشتہ روز مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیے جانے کے بعد ان شکوک وشبہات کو مزید تقویت ملی ہے اور اب سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کو بھی اس معاملے پر حکومت وقت کی نیت مشکوک نظر آنے لگی ہے اور انہیں بھی الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوتے مشکل نظر آتے ہیں موجودہ حکومت کے اختتام سے چند روز قبل نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری پر ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے سوال اٹھا دیا ہے کہ انتخابات سےعین پہلے مردم شماری نوٹیفائی کرنے کا کیا مقصد ہے؟ سی سی آئی میں 2 غیر منتخب وزرائے اعلیٰ کیوں تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس سے تو انتخابات سے فرار کی بُو آنے لگی ہے۔ مردم شماری نوٹیفائی کرنا الیکشن سے فرار ہے منصوبہ ساز الیکشن میں 6 ماہ سے زیادہ کا التوا چاہتے ہیں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد راجا کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد اب آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہوگیا ہے۔ اگلا الیکشن 15 فروری سے پہلے ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا پلڈاٹ کے سربراہ بلال محبوب نے بھی فروری سے پہلے انتخابات کے انعقاد پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی اس اقدام کو حکومت کی بدنیتی سے تعبیر کیا ہے اور اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے مردم شماری کی منظوری سراسر بدنیتی ہے اس حوالے سے سربراہ ادارہ شماریات ڈاکٹر نعیم ظفر کا کہنا ہے کہ اگلا الیکشن نئی مردم شماری پر ہی ہوگا، حلقہ بندیوں پر کام جلد شروع ہو جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں