صحافی عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے دعوی کیا ہے کہ عمران ریاض محفوظ ہیں۔انہوں نے سیاست ڈاٹ پی کے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کا کرم ہے عمران ریاض اللہ کی خاص حفاظت میں اور خیریت سے ہے۔عمران ریاض کو دو شہروں کے درمیان متعدد بار ٹرانسفر کیا، اس سے متعلق میرے پاس معلومات موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے عمران خان ریاض کو اپنے طرزِ صحافت کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عمران ریاض کسی کیس میں بھی مطلوب نہیں ہے۔وہ حال ہی میں فیملی کے ہمراہ عمرہ کرکے بھی آئے تھے لیکن تب تو گرفتار نہیں کیا گیا۔سیالکوٹ ائیرپورٹ سے گرفتاری کے بعد ایک جعلی قسم کی کہانی بنائی گئی اور نظربندی کا حکم جاری کیا گیا۔میاں علی اشفاق نے مزید بتایا کہ جب بھی کسی قیدی کو جیل بھیجا جاتا ہے تو اس کا مکمل طریقہ کار ہوتا ہے،ملزم کی تصویر بھی بنائی جاتی ہے،فنگر پرنٹس لیے جاتے ہیں۔میاں علی اشفاق نے دعویٰ کیا کہ میرے پاس ثبوت موجود ہیں کہ عمران ریاض کو جب جیل سے نکالا گیا تو شہر کی طرف منتقل کیا گیا۔مجھے پولیس نے کہا تھا کہ عمران ریاض ایک بیان حلفی دیں جس میں وہ بتائیں کہ وہ نہ تو کسی قسم کے ہنگامہ آرائی کے وااقعات میں ملوث ہیں اور نہ ہی میں آئندہ ارادہ رکھتے ہیں۔میرے کہنے پر عمران ریاض نے یہ درخواست لکھی اور اس کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔مجھے پہلے ہی خدشہ تھا کہ عمران ریاض کو کہیں اور لے جایا جائے گا اس وجہ سے وقت پر کچھ لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ عمران ریاض کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔عمران ریاض کو جس نامعلوم مقام پر لے جایا گیا اس کی ویڈیوز میرے پاس موجود ہیں،عمران ریاض کا آخری ٹریک ہم نے پاس رکھا۔جب پولیس کو پتہ چلا کہ میرے پاس ویڈیوز موجود ہیں تو دوبارہ انہیں جیل لایا گیا۔وکیل کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ شام کے بعد کسی قیدی کو جیل سے رہا نہیں کیا جا سکتا تو پھر رات گئے عمران ریاض کو کس نے رہا کیا۔اب عدالت کے سامنے کچھ ایسے شواہد لاؤں گا جس سے واضح ہو گا کہ پولیس اس تمام معاملے میں ایک پارٹی کا کردار ادا کر رہی تھی۔میاں علی اشفاق نے دعویٰ کیا کہ آئی جی پنجاب کو عمران ریاض کی ایک ٹویٹ بھی ناگوار گزری تھی جس میں انہوں نے آئی جی پنجاب کی ایک ویڈیو شئیر کی تھی جس میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے تھے کہ اگر پولیس پر کوئی حملہ کرتا ہے تو اسے گولیاں ماری جائیں۔آئی جی پنجاب نے ذاتی عناد کی بنا پر سہولت کاری کی۔
