اسلام آباد : لیلیٰ جوپلو کا ترکی میں اپنا گھر بنانے کا خواب چند ہی منٹوں میں چکنا چور ہو گیا۔ لیکن انہیں اور ان کے شوہر تحسین کو یہ احساس ہونے میں ہفتوں لگے۔ اڑتالیس سالہ لیلا جرمنی میں پیدا ہوئیں اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے گیلزن کِرشن ہورسٹ کی ایک بیکری میں تیس سال تک کام کرتی رہیں۔ان کے شوہر کا تعلق ترکی کے شہر آدیامان سے ہے، جو فروری میں ترکی اور شام میں آنے والے زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ تحسین جوپلو شادی کے بعد تیس سال قبل جرمنی آ گئے تھے۔ انہوں نے چند سال قبل آدیامان کے باہر گول باشی میں ایک گھر خریدا۔ جرمنی میں بہت سے ترک نژاد لوگوں کی طرح اس جوڑے نے بھی اپنی ریٹائرمنٹ اپنے آبائی ملک میں گزارنے کا خواب دیکھا اور اپنی تمام بچت ایک دن تحسین کے خاندان کے قریب رہنے کے لیےوقف کر دی۔لیکن پھر چھ فروری کی وہ صبح آئی، جب زلزلے کے شدید جھٹکو ں نے ترکی کو ہلا کر رکھ دیا اورآدیامان کے ایک چھوٹے سے شہر میں سو سے زیادہ جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ان زلزلوں نےگول باشی کو تباہ کر دیا۔ جوپل ہاؤس بھی بری طرح متاثر ہوا اور اب اسے گرایا جانا ہے۔تحسین جوپلو نے کہا،”مجھے نہیں لگتا کہ میرے پاس شہر کی تعمیر نو کو دیکھنے کے لیے کافی وقت ہے۔ہم اب اپنی ریٹائرمنٹ اپنے آبائی شہر میں گزارنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اگرچہ ہم نیا گھر خریدنا چاہیں تو ہمارے پاس اس کے لیے کافی رقم نہیں ہے۔ جرمنی میں رہنا مہنگا ہو گیا ہے، ہم نیا گھر نہیں خرید سکتے۔ ہم نے ان تمام سالوں میں جو پیسہ بچایا وہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘وہ کہتے ہیں کہ انہیں اب تک کوئی امداد نہیں ملی اور نہ ہی وہ اس کی توقع رکھتے ہیں۔گہرا صدمہڈی ڈبلیو نے جرمنی میں ایسے بزرگ تارکین وطن کے بہت سے کیسز کے بارے میں معلوم کیا ہے، جو اپنی پنشن کی تکمیل کے لیے ترکی میں مکان کے کرائے کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں اور ایسے بہت سے دوسرے ترک نژاد جرمن بھی ہیں، جو ترکی منتقل ہونے کے اپنے عمر بھر کے خواب پورا کرنے کی راہ پر گامزن تھے، جس کے لیے انہوں نے زندگی بھر محنت کی۔لیکن چند لوگ ہی اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔ترک حکومت کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ بہت سی لاشیں ملنا باقی ہیں۔ شاید جزوی طور پر اسی وجہ سے چند تنظیمیں ڈی ڈبلیو سے گمشدہ جائیدادوں پر بات کرنا چاہتی تھیں۔تارکین وطن کی پہلی نسل کے لیے ترکی میں جائیداد خریدنا شروع میں کوئی طویل المدتی منصوبہ نہیں تھا۔ یہ بنیادی طور پر اپنے وطن میں خاندان کے لیے آمدنی حاصل کرنے کا معاملہ تھا۔ بہت سے نام نہاد ”گیسٹ ورکرز‘‘ نے اپنی آمدنی کا دو تہائی حصہ بچا کر اپنے ملک واپس بھجوایا۔ لیکن جرمنی آنے والے لوگوں کی اس ابتدائی نسل کے دوسرے حصے کی زندگی کے منصوبے ترکی واپس جانے پر مرکوز تھے۔یہ بعد میں بدل گیا۔ بہت سے ترک کارکن جرمنی میں منصوبہ بندی سے زیادہ دیر تک رہے اور انہوں نے اپنی اجرت کا زیادہ سے زیادہ حصہ روزمرہ کے استعمال پر خرچ کیا۔ انہوں نے رفتہ رفتہ جرمنی میں زندگی بسر کی اور ریٹائرمنٹ پلان کے طور پر ترکی میں جائیدادیں خریدیں۔ایک تحقیق کے مطابق تقریباً تیس فیصد ترک نژاد لوگ جرمنی اور ترکی دونوں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں جبکہ تقریباً اڑتالیس فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ترکی ہی ان کا گھر ہے۔گھر وہیں، جہاں اہل خانہ مل بیٹھیںاس نسل میں برلن میں مقیم چوبان خاندان بھی شامل ہے۔ جان چوبان کا تعلق صوبہ ہتائے کے زلزلے سے تقریباً مکمل طور پر تباہ ہونے والے انطاکیہ شہر سے ہےجبکہ ماریا چوبان کے والدین وہاں ایک قریبی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ان کی بیٹی ایلیسیا برلن میں پیدا ہوئی تھی۔ بیس سالہ ایلیسیا کا انطاکیا کے بارے میں کہنا ہے، ”میرے لیے یہ گھر ہے، ایک جادوئی جگہ، نہ کہ صرف چھٹی گزارنے کی ایک جگہ ہے۔میں وہاں اپنی خاندانی تاریخ میں خود کو غرق کر سکتی ہوں۔ جہاں میرے دادا دادی والدین نے زیتون کے درخت لگائے، جن سے ہم آج بھی فصل حاصل کرتے ہیں۔‘‘ہر کسی کے پاس زلزلے کا بیمہ نہیںچوبان فیملی کے ترکی کے شہر انطاکیہ کے پاس ایک گاؤں میں واقع گھر کو زلزلے سے صرف چند دراڑیں پڑیں اور یہ انہوں نے ایک ایسے خاندان کو دے دیا، جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔چوبان موسم گرما میں دوبارہ وہاں سفر کریں گے لیکن وہ اپنے کزن یا دوست کے ساتھ رہیں گے۔لیکن انطاکیا میں ان کا اپارٹمنٹ زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور بہت سے لوگوں کی طرح ان کے پاس بھی زلزلے کی انشورنس نہیں ہے۔ جان چوبان بتاتے ہیں، ”ہم چھوٹے زلزلوں کے بارے میں جانتے تھےلیکن ہمیں اتنے بڑے زلزلوں کی توقع نہیں تھی۔ کسی اتھارٹی یا انشورنس کمپنی نے ہمیں کبھی اس سے آگاہ نہیں کیا۔وہ اپنے آبائی شہر میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اکثر انطاکیہ جانے کا ارادہ کر تے تھے لیکن اب انہیں اپنے منصوبوں کو بدلنا پڑا۔ انہیں امید ہے کہ شہر دوبارہ تعمیر ہو گا۔جوپلو خاندان کا کہنا ہے کہ وہ آدیامان میں مکان خریدنے سے پہلے زلزلے کے خطرے کے بارے میں جانتے تھے۔ لیکن کسی کو بھی اس پیمانے پر تباہی کی توقع نہیں تھی، اور ان کے پاس بھی کوئی انشورنس نہیں تھی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں تباہی کی حد کا اندازہ ہوتا تو وہ وہاں اپنا گھر نہ خریدتے۔شاید اب لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں‘یہ خاندان ابتدائی امدادی کاموں میں حکومتی تاخیر پر خوش نہیں۔ماریا چوبان آج بھی ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا، ”شاید اب لوگ انتخابات میں آنکھیں کھولیں گے اور ایک اچھے زیادہ جمہوری ترکی کو ووٹ دیں گے۔ترکی میں 14 مئی کو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اب تک بیرون ملک مقیم ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمران جماعت جسٹس ایند ڈیولپمنٹ ( اے کے پی) کے ٹھوس حامی رہے ہیں لیکن زلزلے کے بعد اب ان کے لیے پہلے سی صورتحال نہیں رہی۔ جرمنی میں بہت سے ترک ووٹروں نے نوٹ کیا ہے کہ زلزلہ زدگان کے لیے صدر ایردوآن کی امداد کس قدر غیر منظم رہی ہے۔جوپلو خاندان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی اے کے پی کی حمایت نہیں کی لیکن زلزلے کے بعد وہ تمام اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔لیکن چوبان نے صرف ایک اپارٹمنٹ نہیں کھویا۔ انہوں نے اپنے کیٹرنگ کے کاروبار کو کھولنے کے لیے کام کرتے ہوئے دو سال گزارے تھے، اور اس کے لیے تقریباً تمام گھریلو اجزاء سے آنے والے تھے۔بندرگاہی شہر اسکندرون میں کنٹینر پہلے ہی تیار تھا۔یہاں بھی زلزلے کے بعد بندرگاہ پر آگ لگ گئی اور سب کچھ تباہ کر دیا۔ اور پھر بھی جان چوبان کہتے ہیں، ”ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ زندگی گھر یا سامان سے زیادہ اہم ہے۔‘‘وہ اب بھی جلد از جلد دوبارہ وہاں مکان یا اپارٹمنٹ خریدنے کی امید کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جوپلو خاندان کو ترکی واپسی کا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔
70