اسلام آباد : شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی صدارت فی الوقت بھارت کے پاس ہے اور اس حیثیت سے وہ بدھ کے روز دارالحکومت دہلی میں تنظیم میں شامل ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں اور دیگر اعلیٰ حکام کی میٹنگ کی میزبانی کر رہا ہے۔بھارت نے پاکستان کو ایس سی او سیمینار میں شرکت سے کیوں روکا؟بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کریں گے۔بھارتی میڈیا نے نئی دہلی کے حکام کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ بدھ کے روز کی اس میٹنگ میں پاکستان نے بھی شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔بھارت کا پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ تاہم پاکستان اور چین نے اس کے لیے اپنے وفود نئی دہلی نہیں بھیجے ہیں اور دونوں نے ورچؤل طور پر یعنی آن لائن ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔البتہ حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی مندوبین بھی شامل ہوں گے۔شی اور پوٹن کی عالمی نظام چیلنج کرنے کی کوشش کامیاب ہو گی؟ایک ہفتے قبل ہی کشمیر کے نقشے پر تنازعہ ہونے کے سبب شنگھائی تعاون تنظیم کے افسران کی سطح پر دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار میں پاکستانی مندوبین نے شرکت نہیں کی تھی۔ بھارت نے ان سے کہا تھا کہ وہ سیمینار میں پیش کرنے کے لیے کشمیر کے اپنے نقشے کو درست کریں ورنہ شرکت سے گریز کریں۔چین اور روسی صدر کی ملاقات میں یوکرین پر بھی بات ہو گی اطلاعات کے مطابق روسی فیڈریشن کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولائی پیٹروشیف نئی دہلی میں ہیں اور وہ بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔توقع ہے کہ بدھ کی میٹنگ میں افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا اور یور ایشیئن اقتصادی بلاک سے متعلق روس کے منصوبوں پر صلاح و مشورہ کیا جائے گا تاکہ اسے آگے بڑھایا جا سکے۔سعودی عرب کی تنظیم میں شمولیت؟شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جو سن 2001 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ بھارت، چین، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان جیسے آٹھ رکن ممالک پر مشتمل ہے۔چار ممالک، افغانستان، بیلاروس، ایران اور منگولیا اس میں بطور مبصر شامل ہیں اور آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکی جیسے چھ ممالک مذاکراتی شراکت دار ہیں۔تازہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی کابینہ نے بھی بدھ کے روز شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کے فیصلے کو منظوری دے دی ہے۔واضح رہے کہ امریکی سلامتی کے خدشات کے باوجود ریاض نے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔سعودی عرب کو تنظیم کی مکمل رکنیت دینے سے پہلے اسے ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا جائے گا، جو شمولیت کے لیے پہلا قدم ہے۔آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکی کو پہلے ہی یہ درجہ مل چکا ہے۔بیجنگ کے ساتھ ریاض کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے اس کے روایتی اتحادی واشنگٹن میں سکیورٹی کے تعلق سے کافی خدشات پائے جاتے ہیں۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ چین دنیا بھر میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
55