پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر کسی ٹھوس نتیجے کے بغیر ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے۔
پاکستان نے مذاکرات میں انتہائی دوٹوک اور غیر مبہم مؤقف اپنایا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے صرف زبانی یقین دہانیاں ناکافی ہیں۔
پاکستان کا بنیادی اور قانونی مطالبہ:
افغان سرزمین سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا مکمل خاتمہان گروہوں کے رہنماؤں کی پاکستان کے حوالے کی ضمانتایک تحریری اور ٹھوس یقین دہانیپاکستان نے واضح کیا کہ یہ مطالبہ کسی ملک کی خودمختاری کے خلاف نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہےتاہم، مذاکرات کے آخری مرحلے پر افغان وفد نے ٹھوس اور قابلِ عمل قدم اٹھانے سے انکار کر دیا، جس کے باعث مذاکرات کامیاب نہ ہو سکےذبیح اللہ مجاہد کا بیان اور پاکستان کا ردعملافغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حالیہ بیان پر پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس میں پاکستان کے مؤقف کو غلط انداز میں پیش کیا گیاسفارتی حلقوں کے مطابق، یہ بیان دراصل روایتی پروپیگنڈا ہے، جبکہ ٹی ٹی پی کی قیادت، تربیت اور فنڈنگ کا نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں سرگرم ہے، جو خطے کے امن کے لیے خطرہ ہےمشترکہ مانیٹرنگ میکانزم کا مطالبہپاکستان نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر افغان ریجیم واقعی اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک سمجھتی ہے، تو بین الاقوامی مبصرین، ترکیہ یا قطر کے نمائندوں کے ساتھ مشترکہ مانیٹرنگ میکانزم کو قبول کرے تاکہ حقائق منظر عام پر آئیںپاکستان کا مؤقف: قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیںپاکستان نے ہمیشہ بات چیت، علاقائی تعاون اور امن کو ترجیح دی ہے اور لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے کر برادرانہ تعلقات نبھائے ہیںتاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے عوام کی سلامتی پر کسی سمجھوتے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور صرف بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔