71

کیا سعودی عرب کا خواب پورا ہو پائے گا؟

اسلام آباد ؛ سعودی عرب نے رواں ماہ امریکی کمپنی ‘ہیبیٹاس‘ کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس نے صحرا میں سالانہ ‘برننگ مین‘ فیسٹیول پر لگژری کیمپنگ کا آغاز کیا۔ مذکورہ فیسٹیول کثرت سے شراب نوشی، رقص، منشیات اور نازیبہ ملبوسات کے لیے جانا جاتا ہے ‘ہیبیٹاس‘ خود کو ماحول دوست اور ایک ثقافتی کمپنی کے طور پر پیش کرتی ہے، جو پرتعیش گھروں اور آرام و سکون کے دیگر شاندار مقامات تیار کرتی ہے ایران اور سعودی تعلقات سے مسلم دشمن بے چین،صدر ابراہیم رئیسی کیا سعودی عرب اپنی سیاسی جہت بدل رہا ہے؟پہلی سعودی خاتون کی خلائی مشن مکمل کرنے کے بعد بحفاظت واپسی
دوسری جانب سعودی عرب ایک ایسے شاہی خاندان کی حکمرانی کے لیے مشہور ہے، جو کسی سیاسی مخالفت کو برداشت نہیں کرتا، سزائے موت پر عمل درآمد میں دیر نہیں کرتا اور جو ایک انتہائی قدامت پسند اور مذہبی معاشرہ ہے تو پھر سینکڑوں ملین ڈالر کے کاروباری معاہدے میں ہے کیا؟سعودی عرب سیاحت کے شعبے میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ وژن 2030 کے تحت طویل المدتی منصوبہ یہی ہے کہ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار کم کر کے اسے زیادہ متنوع بنایا جائے۔ ریاض حکومت چاہتی ہے کہ سیاحت سے حاصل ہونے والی قومی آمدنی کو دس فیصد تک پہنچایا جائے، جو اس وقت تین فیصد ہے مقصد یہ بھی ہے کہ اس شعبے میں ملازمتوں کے ایک ملین نئے مواقع پیدا ہوں تیل سے مالا مال سعودی مملکت نے سن 2019 میں الیکٹرانک ویزا کے اجرا کے ساتھ 49 ممالک کے سیاحوں کو ملک میں آسانی سے داخلے کی اجازت دی۔ فی الحال ایک ای ویزاکی قیمت 142 ڈالر ہے میونخ کی یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز سے وابستہ سیاحتی امور کے پروفیسر مارکوس پِل مائر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا مشاہدہ کرنا انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک سعودی عرب سیاحتی میدان میں نہیں تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بات کا واضح طور پر اندازہ لگانا ابھی بہت جلد ہو گا کہ آیا ریاض حکومت اپنی ان کوششوں میں کامیاب بھی ہو جائے گی؟‘‘اعداد و شمار کے مطابق گرچہ سعودی عرب کے سیاحت سے متعلق اہداف کا حصول کافی مشکل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ہمسایہ ملک متحدہ عرب امارات میں قومی آمدنی میں سیاحت کا حصہ تقریباً 12 فیصد ہے سعودی حکومت ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ ساتھ ہی ہوٹلنگ کے شعبے میں ہلٹن، حیات اور ایکور جیسے کئی بڑے ناموں کے ساتھ معاہدے بھی کیے گئے ہیں جبکہ ایک نئی ایئر لائن ریاض ایئر بھی سن 2025 تک اپنی تجارتی پروازیں شروع کر دے گی دریں اثناء حکام نے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں کئی شعودی مقامات کی شمولیت کے لیے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں مشرق وسطیٰ میں تیز ترین ترقی پچھلے سال لندن میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کا سیاحتی شعبہ سب سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2025 تک تقریباً 40 فیصد زیادہ سیاح سعودی عرب کا رخ کر رہے ہوں گے دوسری جانب کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سیاحت کے شعبے کو موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرہ لاحق ہے اور 2019 میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں ‘سیاحت کی تحقیق‘ کے مصنفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ ان چار خطوں میں سے ایک ہے، جہاں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہوں گے پانی کی کمی سعودی عرب کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے کیونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ صحرائی ہے۔ نتیجتاً ڈی سیلینیشن پلانٹس کو چلانے کے لیے بڑی مقدار میں توانائی استعمال ہوتی ہے، جو زمینی پانی کے ذرائع کو بھی تیزی سے ختم کر رہی ہے دیگر چیلنجز، جو سعودی عرب میں سیاحت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، وہ ہیں اس ملک میں انسانی حقوق کا منفی ریکارڈ اور انتہائی قدامت پسند مقامی ثقافت۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق پر قدغنیں آج بھی حقیقت ہیں۔ مقامی لوگوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلقات اور ہم جنس پسندانہ جسمانی تعلقات بھی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ سن 2019 کے بعد اس قسم کے قوانین میں نرمی آئی ہے لیکن صرف بین الاقوامی سیاحوں کے لیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں