کراچی: شہر قائد میں پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کے واقعات کے تناظر میں دہشت گردی کا خطرہ تو نہیں؟ اعلیٰ حکام نے سر جوڑ لیے تفصیلات کے مطابق کراچی میں پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کے واقعات کی تحقیقات کا دائرہ مزید پھیلا دیا گیا، حالیہ واقعات دہشت گردی کا خطرہ تو نہیں؟ اس اہم پہلو پر اعلیٰ حکام نے سر جوڑ لیے ہیں ضلعی پولیس کے ساتھ تحقیقات میں اب اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، ایس آئی یو نے کراچی میں پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کی وارداتوں پر کام تیز کر دیا، اور حالیہ وارداتوں کی تفصیل جمع کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ایک ماہ کے دوران 4 وارداتوں میں پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ سمیت مختلف اقسام کے 8 ہتھیار چھینے گئے، جن میں ایک ایس ایم جی بھی شامل ہے ذرائع کے مطابق واردات کا نشانہ بننے والے اہلکاروں سے بھی کئی گھنٹوں تک سخت سوالات کیے گئے، فارن سیکیورٹی سیل کے ایک اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے، تاہم اس سلسلے میں تفتیش کئی روز بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی یاد رہے کہ ہتھیار چھیننے کی وارداتوں میں 2 پولیس اہلکاروں کو شہید کیا جا چکا ہے، 30 مئی کو سکھن تھانے کی حدود میں فارن سیکیورٹی سیل کے اہلکار سے ایس ایم جی چھینی گئی تھی، واردات کی مزاحمت پر ملزمان نے پولیس اہلکار عبدالمجید کو پستول کے بٹ مار کر زخمی کیا 10 جون کو سہراب گوٹھ میں دو پولیس اہلکاروں کو شہید کر کے اسلحہ چھینا گیا، بعد میں مرکزی ملزم شرابو پولیس مقابلے میں مارا گیا، اس واردات میں ڈاکوؤں نے شہید ہیڈ کانسٹیبل رحمت اللہ اور اس کے ساتھی ہیڈ کانسٹیبل عبدالحکیم سے نائن ایم ایم پستول چھینے تھے شرافی گوٹھ تھانے کے اہلکاروں اور ان کے پرائیویٹ ساتھی سے بھی 4 پستول چھینے گئے تھے، پولیس اہلکار اپنے ساتھی کے ہمراہ مانسہرہ کالونی فیچر موڑ کے قریب چائے کے ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ واردات ہوئی، خیال رہے کہ پولیس اہلکاروں کی شہادت سمیت اسلحہ چھیننے کی وارداتوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج ہیں
73