اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت عظمی کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی خصوصی بنچ نےکیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر 3 رکنی بنچ کا حصہ ہیں۔الیکشن کمیشن نے 14مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل نہیں۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، دلائل مختصر رکھیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتہ تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ اگر صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگران حکومت رہے گی۔90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے،نگران حکومت 90 دن میں الیکشن کروانے ہی آتی ہے ،آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عدالت کی ابزرویشن سے متفق ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگران حکومت ساڑھے 4 سال رہے، مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا،کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے ؟۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔
