10

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وہ ضابطہ فوجداری کا ڈرافٹ لے کر آ رہے ہیں جس میں 90 ترامیم ہوں گی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ہم نے نادانیاں کر کے ساری طاقت اور اختیار دیوار کے اس پار دے دیا۔ میں ضابطہ فوجداری کا ڈرافٹ لے کر آ رہا ہوں، جس میں 90 ترامیم ہونگی۔ جوڈیشل کمیشن کو دوبارہ 18 ویں ترمیم کی روح کے مطابق بنایا جائے گا۔وزیر قانون نے کہا کہ ایف آئی آر اندراج، چالان، پراسیکیوشن کے رول، ضمانتوں میں آسانی کی ترامیم ہونگی۔ ایک سال میں ٹرائل مکمل ورنہ جج کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ یہ سب کچھ موجود ترامیم میں موجود ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں میرے تیار کردہ جوڈیشل پیکج کو جس مرضی بار میں لے جائیں، جس بار سے مسترد ہوا تو میں جواب دہ ہوں گا۔انہوں نے کہا کہ جب آپ اپنا اختیار استعمال کرینگے اور قانون سازی کریں گے تو چیزیں واپس آئیں گی۔ پارلیمان کا اختیار ہے آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے مناسب قانون سازی کرے۔ ہم حکومتی اتحاد ہیں اور مسودہ لانا حکومت کی ذمہ داری ہے جب کہ اپوزیشن کا کام مسودے پر تنقید کر کے چیزیں نکلوانا یا ڈلوانا ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ حکومت بنی تو طے ہوا تھا کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے نا مکمل ایجنڈے کو مکمل کیا جائے گا۔ 18 ویں ترمیم بہت بڑا کام تھا جس کی وجہ سے ملک جڑا ہوا ہے۔ یہ آئین سے کھلواڑ کو درست کرنے کے لیے منظور کی گئی تھی۔ اپوزیشن کے ممبران تعصب کی عینک ایک طرف رکھ کر آگے بڑھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کی تجویز پر منفی تاثر دیا گیا کہ یہ عدلیہ پرحملہ ہے۔ حکومت کا کوئی بھی کام ڈاکا، چوری یا رات کے اندھیرے میں نہیں ہوا۔ ایک چیف جسٹس اور 8،7 ججز ہونگے، اس میں وفاق کی ہر اکائی کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ یہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے۔ ہماری مشاورت ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، اعجازالحق، اے این پی سے ہوئی۔ ان کے علاوہ فضل الرحمان سے بھی رابطے ہوئے اور اچکزئی سے بھی بات ہوئی۔اعظم نذیر نے مزید کہا کہ ڈرافٹ تو اس وقت آتے ہیں، جب بل پیش کر دیا جائے۔ ڈرافٹ بل کو سب سے پہلے کابینہ میں لایا جاتا ہے، کابینہ منظوری دیتی ہے، کچھ ابہام یا غلطیاں ہوں تو درست کی جاتی ہیں۔ ابھی یہ ڈرافت وفاقی کابینہ سے منظور نہیں ہوا ہے۔وزیر قانون نے آئینی ترامیم کے حوالے سے کچھ عرصے سے مشاورت جاری تھی۔ ممبران سے گفتگو کا آغاز ہو چکا، ہماری کوشش ہے اتفاق رائے ہو۔ آئینی ترمیم اکثریت نہیں دو تہائی سے ہونی ہے۔ تُکے لگانے کے بجائے سنجیدہ تجاویز لیکر آئیں۔ ہم نے آئینی عدالت میں عمر کی حد میں اضافہ نہ کرنے کی فضل الرحمان کی تجویز مانی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تجویز ہے جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس، 4 پارلیمنٹیرین، ایک وزیر قانون، ایک اٹارنی جنرل اور ایک بار ممبر ہوگا۔ اس کمیشن کو اختیار ہوگا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی پُرفارمنس ویلیو ایٹ کیا کرے۔اعظم تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ مقرر کرنا ہے اور نہ ہی بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی نہیں کہنا کہ کس پارٹی کا سربراہ کون ہوگا۔ ایک عدالت میں روز 12 فیصلے ہوتے ہیں، دوسری طرف ایک جج صرف ایک فیصلہ کرتا ہے۔ جج ایک دن میں صرف ایک فیصلہ کرے تو گھر جانا چاہیے۔ میں چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ سے آن ریکارڈ یہ باتیں کر رہا ہوں۔ خدارا 25 کروڑ عوام کی ترجمان پارلیمان کو مضبوط بنائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں