41

شام کی عرب لیگ میں واپسی کے آثار نمایاں

اسلام آباد : شام کی عرب ریاستوں کے اتحاد میں دوبارہ شمولیت کے آثار بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، جس سے برسوں سےجنگ زدہ اس ملک کی تنہائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس ضمن میں بات چیت کے لیے عرب وزرائے خارجہ اتوار کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جمع ہو رہے ہیں۔ سن 2011 میں شامی حکومت کی جانب سے جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف بے رحمانہ کریک ڈاؤن کے بعد بائیس رکنی تنظیم عرب لیگ نے بطور احتجاج شام کو اپنی صفوں سے باہر نکال دیا تھا۔

لیکن حالیہ مہینوں میں کئی عرب حکام نے دمشق کا سفر کیا ہے، جبکہ شام کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے بھی کچھ عرب ممالک کا دورہ کیا ہے، جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت سے متعلق عرب دنیا کی سیاسی سوچ کے ممکنہ خاتمے کا اشارہ ہے۔

گزشتہ ماہ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے دمشق کا دورہ کیا اور الاسد سے ملاقات کی، جو ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران شام کا اس نوعیت کا پہلا دورہ تھا۔

سعودی عرب ایک اہم علاقائی طاقت کے طور پر انیس مئی کو سالانہ عرب سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے، جس میں شام کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت ہو سکتی ہے۔ ایک علاقائی نشریاتی ادارے کے مطابق عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے اسی ہفتے کہا تھا کہ شام کی اس عرب بلاک میں واپسی کا ”بہت امکان‘‘ ہے۔

الشرق ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ”میں جو کچھ سرگرمیوں اور رابطوں کی رفتار کےحوالے سے دیکھ رہا ہوں، اس کی بنیاد پر شام کی واپسی کا بہت امکان ہے۔

‘‘
علاقائی میڈیا نے جمعے کے روز رپورٹ کیا تھا کہ شام کی ممکنہ واپسی اور سوڈان میں جاری لڑائی پر بات چیت کے لیے عرب وزرائے خارجہ کی اتوار کو قاہرہ میں ملاقات متوقع ہے۔

یہ مذاکرات سعودی عرب، اردن، مصر اور عراق کے وزرائے خارجہ کی اپنے شامی ہم منصب سے عمان میں ملاقات کے ایک ہفتے بعد ہوں گے۔ ان میں شام کے بحران کے حل اور اسد حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے سی این این کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ شام کی واپسی کے لیے عرب لیگ کے ارکان میں کافی حمایت موجود ہے۔
شامی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کی جانب سے تعلقات میں گرمجوشی اس سال مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد سامنے آئی ہے۔ شامی تنازعے میں سعودی عرب شامی باغیوں جب کہ ایران اسد حکومت کی حمایت کرتا آیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں