اسلام آباد : پارک میں چہل قدمی کرنے والوں میں وہ سب سے مختلف نظر آتیں تھیں نہ آس پاس کا ہوش نہ کسی کی پروا۔ بے رونق پھٹی پھٹی آنکھیں، تیل چپڑے سفید بال اور چہرے پر نامعلوم وحشت، جو ان کی جھریوں میں مزید اضافہ کر دیتی۔ کبھی سلام کرو تو جواب میں ہونقوں کی طرح بڑبڑانا شروع کر دیتیں۔ ان کو دیکھ کر ہمیشہ ایک تجسس ہوتا کہ وہ اس حال تک کیوں کر پہنچیں۔ان کا گھر پارک کے سامنے لب سڑک ہی تھا۔ ایک نوجوان لڑکی روز ساتھ آتی اور سختی سے تاکید کرتی، ”پھپھپو پارک کا ایک چکر لگا کر اس بینچ پر بیٹھ کر میرا انتظار کرنا‘‘۔ یہ کہہ کر لڑکی یہ جا وہ جا اور وہ اپنی ہوائی چپل گھسیٹ گھسیٹ کر ناک کی سیدھ میں چلنا شروع کر دیتیں۔اچانک سے اس خاتون کا پارک آنا بند ہو گیا نہ ہی وہ لڑکی نظر آئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ذہن سے محو ہوتی چلی گئیں۔ لگ بھگ ایک سال بعد وہ نوجوان لڑکی پارک میں نظر آئی تو آواز دی۔ شاید وہ مجھے پہچان گئی تھی۔ میں نے اُسے اس کی پھپھو بارے دریافت کیا تو پتا چلا کہ وہ عرصے سے شدید بیمار ہیں۔ علالت کا سن کر میں اس نوجوان لڑکی کے ہمراہ واک کرتے ہوئے ان کا حال احوال پوچھنے لگی۔ نوجوان لڑکی نفسیات میں ماسٹر ز کی طالبہ تھی۔میرے ذہن پر سوار ان سے متعلق سوالات دوبارہ سے سر اٹھانے لگے تو بے ساختہ کئی سوال ایک ساتھ داغ دیے کہ اُس کی پھپھو کا یہ حال کب، کیوں، کیسے اور کس نے کیا؟ اس کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے کہا ”ان کے شوہر اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سیدھا سادا ‘گیس لائٹنگ‘ کا کیس ہے لیکن ہمارے سماج میں ایسے ‘گیس لائٹر‘ کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔میری پھپھو شادی سے قبل ایک صحت مند خوبصورت ہشاش بشاش لڑکی تھیں۔ شادی کے بعد ان کے شوہر انہیں بات بات پر پاگل، جھوٹی، بےوقوف پکارتے۔ان کی ہر بات اور ہر عمل پر شک کرتے۔ ان کے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر نفسیاتی کھیل کھیلتے رہے حتی کہ پھپھو کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ وہ نفسیاتی مریض ہیں۔”یہ سب سن کر میرے ذہن میں گیس لائٹنگ کے کچھ جملے گھومنے لگے۔۰ تم ڈرامہ کوئین ہوں۔۰ تم حد سے زیادہ حساس ہوتی جا رہی ہو، بہتر یہی ہے کہ اب تم سے کوئی بات ہی نہ کی جائے۔۰ یہ سب تمہارے ذہن کا فتور ہے۔۰ سب تمہارا وہم ہے ایسا کچھ بھی نہیں۔۰ یہ سب تمہارے دماغ کی اختراع ہے۰ تم جیسے لوگوں کے لیے پاگل خانہ ہی رہنے کی جگہ ہے۔۰ تم ایک نمبر کی جھوٹی مکار عورت ہو۔۰ تم نفسیاتی بیمار ہو۔کیا یہ جملے آپ کو بھی جانے پہچانے محسوس ہوئے؟ ایسے جملے زندگی میں ہماری سماعت سے کبھی نا کبھی ضرور ٹکراتے ہیں۔ یہ تمام جملے دراصل ایسے الزامات ہیں، جو ایک انسان سے اس کا اعتماد، طاقت اور اپنا آپ چھین لیتے ہیں۔1938ء میں برطانیہ میں ایک نفسیاتی موضوع پر ایک تھیٹر ڈرامہ ”گیس لائٹ‘‘ پیش کیا گیا۔ہالی وڈ کے ہدایت کار جارج کوکور نے اسی نام اور موضوع پر 1944ء میں فلم بنائی جو اپنے اچھوتے موضوع اور بہترین اداکاری وہدایت کاری کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئی۔ گیس لائٹ ایک ایسے محبت کرنے والے جوڑے کی کہانی تھی، جس میں مرد اپنی محبوب بیوی کو گیس لائٹ کی روشنی مدہم کر کے اس کے زیورات چرانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب وہ مدہم روشنی ہونے کا گلہ کرتی ہے تو وہ اسے باور کراتا ہے کہ یہ سب اس کے ذہن کی اختراع ہے۔ڈرامے اور فلم کے ہدایت کاروں کو قطعی یہ علم نہیں تھا کہ گیس لائٹنگ کو کئی عشروں بعد بحیثیت ایک اصطلاح استمعال کیا جائے گا۔1995ء میں نیویارک پوسٹ کی کالم نگار ”مورین ڈاوڈ ” نے اپنے کالم میں ایسی جبری ذہنی زیادتی کے واقعات کو پہلی بار گیس لائٹنگ کا نام دیا۔ 2021ء میں جب امریکن سائیکلوجیکل ایسوسیشن نے جبری ذہنی استحصال کے کیسز کو گیس لائٹنگ کی اصطلاح کے طور پر استمعال کیا، تب سے نفسیاتی ماہرین تعلقات میں جابرانہ طور پر طویل عرصے تک کسی کے زیر تسلط رہنے والے افراد کی طبی حالت کی تشخیص کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے لگے۔گیس لائٹنگ عام طور پر شدید رومانوی تعلقات میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے لیکن کبھی یہ والدین اور بچوں، دو ہم پیشہ افراد اور دوستوں کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ گیس لائٹنگ میں عموماً دو فریق ہوتے ہیں۔ گیس لائٹر وہ جو زیادتی کرنے کا مرتکب ہو اور گیس لائٹڈ متاثرہ فرد کو کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر گیس لائٹر زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔آخر گیس لائٹنگ ہے کیا؟گیس لائٹنگ ایک نفسیاتی ذہنی زیادتی یا دباؤ کی ایک انتہائی قسم ہے، جہاں ایک فرد دوسرے فرد کو ذہنی طور پر اس حد تک لاغر کر دیتا ہے کہ اس کا رفتہ رفتہ اپنے دماغ سے کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ گیس لائٹنگ کے مختلف نوعیت کے کیسز ہوتے ہیں۔ کچھ واقعات میں گیس لائٹر جھوٹ کوسچ بنا کر متاثرہ فرد کو یہ باور کرواتا ہے کہ ان کے رشتے میں جو کچھ غلط ہو رہا ہے اس کی وجہ وہ خود ہے۔نفسیاتی ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں دراصل گیس لائٹر کسی بھی وجہ سے رشتے نبہانے کی یا تو سکت کھو بیٹھتا ہے یا اس رشتے سے چھٹکارا پانے کے لیے گیس لائٹنگ کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے، کیونکہ لاشعور میں اسے اس بات پر شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ اس رشتے کو ختم کرنے کا ذمہ دار ہے لیکن وہ شعوری طور پر اس ندامت کوچھپانے کے لیے دوسرے فرد پر الزام تراشی کر کے نفسیاتی برتری حاصل کرتا ہے۔جبکہ شدید نوعیت کے گیس لائٹر نفسیاتی مکارانہ حربے اپنی برتری حاصل کرنے کے لیے اس وقت تک استمعال کرتا ہے جب تک متاثرہ فرد خود اپنے ہی خیالات، یادداشت، شعور اور خود اعتمادی پر سوال اٹھانا نا شروع کر دے۔حتی کہ اکثر متاثرہ شخص کو متواتر یہ باور بھی کرایا جاتا ہے کہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مسلسل الجھن، خود اعتمادی میں کمی، ذہنی اور جذباتی عدم استحکام اور گیس لائٹنگ کا ارتکاب کرنے والے شخص کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔گیس لائٹنگ کے اکثر واقعات میں دانستہ فریب دینے کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے۔ لیکن اس فریب کاری کے پیچھے ایک طویل حکمت عملی اور منصوبہ بندی شامل ہوتی ہے۔ ایسے گیس لائٹر کا مقصد اپنے پارٹنر کی دولت و مرتبہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔اگر غور کیا جائے تو گیس لائٹرز کا بنیادی مقصد دوسرے فرد کو اپنا تابع بنانا اور ان کی شخصیت کو مسخ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ خود اپنی ہی صلاحیتوں پر شک و شبہات کا شکار ہوجائے۔زیادہ تر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ گیس لائٹر بظاہر دیگر دنیاوی معاملات بے حد خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں۔ مثلاً تحفے تحائف دینا، سالگرہ منانا اور سیر و تفریح پر لے جانا۔لیکن اپنے تابع شخص کی انفرادیت، کامیابی اور شخصی آزادی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایسے افراد دوسرے فرد کو مختلف حوالوں سے کم تر ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔بظاہر معمولی محسوس ہونے والا یہ ذہنی استحصالی رویہ ایک جیتے جاگتے شخص کو اپنی حقیقت کے ادراک سے بےبہرہ کر دیتا ہے۔ خود اعتمادی پر ضرب کاری کے ساتھ شروع ہونے والا یہ کھیل ایک فرد کو بتدریج نفسیاتی بیمار بنا کر چھوڑتا ہے۔ ایسے افراد سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے گیس لائٹنگ کے بارے میں معلومات بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ورنہ لوگوں کو پوری زندگی اس بات کا ہی احساس نہیں ہو پاتا کہ وہ ذہنی اور جذباتی استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔کسی انسان کے ساتھ اسے بڑی نا انصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی دوسرے کے تابع ہو کر آپ اپنی شخصیت کو ہی کچل دے۔ لیکن ہمارے سماج میں نہ جانے کتنی ہی عورتیں اس لڑکی کی پھپھو کی طرح گیس لائٹنگ کا شکار ہو کر اپنی ذات کی نفی کرتے کرتے اپنے ہی حواس کھو بیٹھتی ہیں؟نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
85