چاند اگر زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟ خوفناک سائنسی تصور نے دل دہلا دیے

ایک لمحے کیلیے تصور کریں کہ ایک صبح ہماری آنکھ کھلے اور ہماری نظر کھڑکی سے باہر کے منظر پر پڑے اور آسمان پر ایک دیوہیکل خوفناک منظر نظر آئے کہ ایک بہت بڑا چاند ایک عظیم الجثہ اور گڑھوں سے بھرا ہوا پتھریلاجسم بن کر زمین کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ منظر سائنس فکشن فلموں خصوصاً مون فال جیسی کہانیوں میں تو دکھایا جاچکا ہے، مگر اگر سائنس کی زبان میں بات کی جائے تو اس قیامت خیز امکان کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟

پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا چاند زمین سے ٹکرا سکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر ماہرین فلکیات سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوئے اور اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس خدشے کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند کا اپنے مدار سے باہر نکلنا اور زمین کے ساتھ تصادم کے راستے پر چل پڑنا تقریباً ناممکن ہے، حقیقت یہ ہے کہ چاند ہر سال تقریباً 3.8 سینٹی میٹر کی رفتار سے زمین سے دور جا رہا ہے جو سمندری مد و جزر کا نتیجہ ہے۔

اس لیے اچانک اس کا زمین پر گر جانا کسی صورت ممکن نہیں جب تک کہ کوئی غیر معمولی بیرونی قوت مثلاً کوئی بھولے بھٹکے سیارچے یا ٹکراؤ کسی وجہ سے چاند کے مدار کی رفتار کا اچانک سست ہو جانا یا اس کے مدار اور توازن میں بگاڑ نہ پیدا ہوجائے۔

لہٰذا اگر چاند کبھی بھی زمین کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر ہوا تو ہمیں اس بارے میں بہت سال پہلے ہی معلوم ہوجائے گا۔

چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا ہوگا اس کیلیے اس سائنسی مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے مرحلہ وار اس تباہی کا جائزہ لیتے ہیں، جیسا کہ فلکیاتی ماڈلز اور سمیولیشنز میں بیان کیا جاتا ہے۔

فرض کریں کہ اگر کسی بھی وجہ سے چاند کا مدار متاثر ہوجائے اور وہ زمین کی جانب آہستہ آہستہ سرکنے لگے تو کیا ہوگا؟ سائنسی تخمینوں کے مطابق ابتدا میں کچھ تبدیلیاں معمولی محسوس ہوں گی مگر جلد ہی حالات بےقابو ہونا شروع جائیں گے جیسے جیسے چاند قریب آتا جائے گا، اس کی کششِ ثقل میں اضافہ ہوگا جو سمندروں میں مد و جزر کا باعث بنتی ہے۔

نتیجتاً سمندری لہریں سینکڑوں میٹر بلند ہوسکتی ہیں، ساحلی شہر دنیا بھر میں زیرِ آب آجائیں گے۔ نیویارک، ٹوکیو اور ممبئی جیسے شہر مسلسل آنے والی دیوہیکل لہروں اور سونامیوں کی نذر ہو جائیں گے، جہاں روزمرہ زندگی کا تصور ختم ہو کر رہ جائے گا۔

یہ تباہی صرف سمندروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ زمین کی پرت اس شدید کشش کے باعث مزید دباؤ میں آجائے گی، جس سے شدید زلزلے اور آتش فشانی دھماکے رونما ہوں گے اور زمین کی ساخت یکسر بدل جائے گی۔

اس کے علاوہ زمین کی گردش میں بھی بے قاعدگی پیدا ہوسکتی ہے اور موسم انتہائی شدت اختیار کر لیں گے آئے دن طاقتور سمندری طوفان اور تباہ کن بگولے معمول بن جائیں گے۔ رات کے وقت آسمان کا منظر اور بھی خوفناک ہوگا، چاند کئی گنا بڑا دکھائی دے گا۔

جب چاند زمین سے تقریباً 18 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچے گا جسے روش کی حد کہا جاتا ہے، جہاں کششِ ثقل کسی سیارچے کی اپنی مضبوطی پر غالب آجاتی ہے تو چاند ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔

اس کی سطح پر دراڑیں پھیل جائیں گی، پہاڑوں کے برابر بڑے بڑے ٹکڑے الگ ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ زمین کے گرد عارضی طور پر سیارہ زحل کی مانند ایک حلقہ (رنگ سسٹم ) بن جائے جس کے نتیجے میں چاند کے بے شمار ٹکڑے شہابی پتھروں کی صورت زمین پر برسیں گے جو اندازے سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔

ٹکراؤ کا آخری اور خوفناک مرحلہ
اور اب صورتحال کا آخری منظر ملاحظہ فرمائیں کہ اگر چاند یا اس کا باقی ماندہ حصہ تقریباً 10 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی تناہی ناقبل بیان ہوگی۔ ٹکراؤ کا مقام بخارات بن جائے گا، چٹانیں پگھل کر پوری دنیا کو ایک عظیم لاوے کے سمندر میں بدل دیں گی۔ زبردست جھٹکے پوری زمین میں دوڑ جائیں گے، سمندر اُبل جائیں گے اور فضا خلا میں بکھر جائے گی۔

قریب موجود ہر جاندار چند لمحوں میں جل کر راکھ ہو جائے گا، جبکہ زمین کے دوسری جانب موجود لوگ یا تو زمین کی شدید تبدیلی کے باعث ہلاک ہو جائیں گے یا جھٹکے کے نتیجے میں خلا میں اچھال دیے جائیں گے یعنی کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔

بالآخر زمین اور چاند ایک ہی انتہائی گرم گھومتے ہوئے پگھلے ہوئے جسم میں ضم ہو جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منظر اس نظریے سے مشابہ ہے جس کے مطابق تقریباً 4.5 ارب سال قبل مریخ کے حجم کے ایک سیارچے تھیا نے قدیم زمین سے ٹکرا کر ملبہ پیدا کیا، جس کے بعد چاند معرض وجود میں آیا۔

اس تمام منظر نامے کے بعد اگر زمین کسی شکل میں باقی بھی رہ جائے تو اس کے نتائج نہایت ہولناک ہوں گے۔ گرد و غبار کے بادل سورج کی روشنی روک دیں گے، دنیا ایک طویل جوہری سردی کی لپیٹ میں آ جائے گی، جہاں درجہ حرارت شدید حد تک گر جائے گا۔

چاند کے بغیر مد و جزر ختم ہو جائیں گے، سمندری نظامِ حیات درہم برہم ہو جائے گا اور زمین کے جھکاؤ کو متوازن رکھنے والی قوت کے بغیر موسم شدید اتار چڑھاؤ کا شکار ہو جائیں گے جیسے کہ کہیں مستقل برفانی صورتحال تو کہیں ناقابلِ برداشت گرمی۔

فی الحال یہ سب محض ایک سنسنی خیز سائنسی تصور ہی ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری کائنات کس قدر نازک توازن پر قائم و دائم ہے۔

یاد رکھیں !! اگلی بار جب آپ چاند کو دیکھیں تو اس کے محفوظ فاصلے پر ہونے پر شکر ادا کریں کہ یہ خاموش نگہبان ہماری دنیا کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔