پاکستان تیزی سے سولر توانائی کی طرف بڑھتے ہوئے دنیا کا تیسرا بڑا سولر پینل درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے، اور اندازہ ہے کہ اگلے سال 2026 میں لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ جیسے بڑے شہروں میں دن کے وقت بجلی کی طلب منفی ہو سکتی ہے، یعنی شہری اور صنعتی صارفین گرڈ سے بجلی لینے کے بجائے اپنی ضرورت سے زائد بجلی پیدا کرکے واپس گرڈ میں شامل کریں گے۔ سرکاری افسر عائشہ موریانی نے روئٹرز کو بتایا کہ مہنگی بجلی اور مسلسل لوڈشیڈنگ کے باعث عوام سولر سسٹم کی طرف تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں گرڈ پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سولر سے عوام کے بل کم ہو رہے ہیں، لیکن بجلی تقسیم کار کمپنیاں مالی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ گرڈ سے لی جانے والی بجلی کم ہونے سے ان کے قرضے بڑھ رہے ہیں۔ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین لا رہی ہے جن کے تحت گھریلو اور صنعتی سولر صارفین کو بھی گرڈ کے اخراجات میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ دوسری جانب حکومت قطر سے مہنگے ایل این جی معاہدے کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ اب ملکی سطح پر سولر توانائی نسبتاً سستی پڑ رہی ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں سولر کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے، تاہم بجلی کمپنیوں اور قومی گرڈ کے لیے نئے چیلنجز جنم لے رہے ہیں۔