درخواست 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز نے دائر کی ہے، جن میں نشاط چونیاں پاور، نشاط پاور نارووال انرجی لمٹیڈ، لبرٹی پاور ٹیک لمٹیڈ، اینگرو پاورجن قادرپور لمٹیڈ، سیفائر الیکٹرک پاور لمٹیڈ اور سیف پاور لمٹیڈ شامل ہیں۔ نیپرا اتھارٹی آئی پی پیز کی درخواست پر 24 مارچ کو سماعت کرے گی، جس میں روپے اور ڈالر کی قدر کے فرق کے طریقہ کار پر نظرثانی کے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔ سماعت میں ٹیک اینڈ پے سسٹم کے تحت ادائیگیوں کے طریقہ کار کا بھی جائزہ لیا جائے گا، اور ای پی سی لاگت کے 0.90 فی صد انشورنس کیپ پر نظرثانی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے شہری دنیا کی مہنگی ترین بجلی استعمال کر رہے ہیں جن میں بڑا کردار آئی پی پیز کا ہے، جنھیں گزشتہ سال بھی کئی سو ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ آئی پی پیز ہیں، جن سے ماضی کی حکومتوں میں کیے جانے والے معاہدے آج قوم کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور انھیں ہر سال اس بجلی کی قیمت بھی اربوں روپے میں ادا کی جاتی ہے جو کہ اس نے بنائی ہی نہیں، پاور ڈویژن کے مطابق 2023 میں آئی پی پیز کو 979 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ یہ شرمناک معاملہ میڈیا میں اچھلنے کے بعد حکومت بھی قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئی، اور آئی پی پیز سے مذاکرات کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی، پہلے مرحلے میں گزشتہ سال اکتوبر میں 5 آئی پی پیز سے معاہدے ختم کیے گئے، اور پھر دسمبر میں مزید 6 آئی پی پیز کے ساتھ مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
