4

سپریم کورٹ نے آئس کیس سے ڈسچارج شہری کو پولیس میں بھرتی کے لیے اہل قرار دے دیا

تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا پولیس میں کانسٹیبل بھرتی کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’’بریت کے بعد جرم کا داغ ملزم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے حکومتی مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر 2021 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت آئس کا مقدمہ درج تھا، ملزم کا کردار ایسا نہیں کہ اس کو پولیس میں بھرتی کیا جا سکے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے 2023 میں درخواست دی ہے، تو کردار کیسے خراب ہو گیا؟ اے جی کے پی نے کہا درخواست گزار پر فوجداری مقدمہ تھا، ایسے میں پولیس رولز کے تحت اچھا کردارنہیں رہتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ’’جب ایک شخص مقدمے سے ڈسچارج ہو گیا تو کیا اس کو سزا ساری زندگی ملے گی؟‘‘ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عجیب منطق ہے کسی شخص پر الزام ثابت نہ ہو تب بھی اہلیت پر شک کیا جائے گا، درخواست گزار کا جرم اتنا ہی بڑا تھا تو آپ نے تفتیشی مرحلے پر بری کیوں کیا؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا بری ہم نے نہیں کیا بلکہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے پھر سوال دہرایا کہ کسی پر جھوٹا مقدمہ بنے اور وہ بری ہو تو کیا ساری زندگی سزا ملے گی؟ سپریم کورٹ نے درخواست گزار کی کانسٹیبل بھرتی کی درخواست منظور کر لی، اور اسے پولیس میں بھرتی کے لیے اہل قرار دے دیا، اس کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی، درخواست گزار داوڑ نے 2023 میں خیبرپختونخوا پولیس میں کانسٹیبل کے لیے اپلائی کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں