تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دریائے سندھ سے 6 نہریں نکالنے کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے، جس میں چولستان سمیت 6 نہروں کی تعمیر کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ قرارداد کے متن کے مطابق 1991 کے معاہدے میں پانی کی تقسیم پر گارنٹی دی گئی ہے کہ چولستان سمیت کوئی کینال سندھ کی مرضی کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتی، پانی کی قلت کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے، اس لیے یہ ایوان چولستان کینال سمیت 6 کینالوں کو مسترد کرتا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ چولستان یا کسی بھی کینال پر سندھ حکومت سے مشورہ ضروری ہے، ایوان وفاق اور ارسا سے مطالبہ کرتا ہے کہ سندھ سے مشاورت کی جائے، وفاقی حکومت سندھ سے اس مسئلے پر مذاکرت کرے، 1991 کے معاہدے کے خلاف کوئی بھی تعمیرات منظور نہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی جام خان شورو نے خطاب میں کہا کہ صدر آصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، پیپلز پارٹی نے پانی کی تقسیم پر ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا، قائم علی شاہ اور نثار کھوڑو نے تھر کینال کے خلاف دو قراردادیں پیش کیں، ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے کیا کیا، کالا باغ ڈیم کو ہمیشہ کے لیے پیپلز پارٹی نے دفن کیا۔ جام خان شورو نے کہا 2013 میں پی پی پی کے خلاف اتحاد بنا، جی ڈی اے نے ن لیگ کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف الیکشن لڑا، یہ کالا باغ ڈیم کی حمایت اور تھر کینال بنانے والوں کا اتحاد تھا، جس کو ہم آج آر اوز کا الیکشن کہا کرتے ہیں اسی طرح کے الیکشن میں نواز شریف اقتدار میں آئے۔ انھوں نے کہا 2014 ستمبر میں جلال پور کینال کی منظوری دی گئی اور ارسا نے این او سی دیا، اس کینال کا معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن کہا گیا کہ جلال پور کینال فلڈ پر بنے گا جو رسول بیراج سے نکلے گا، جہاں سے آج چولستان نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، 7 فروری 2018 کو ایکنک نے جلال پور کینال کی منظوری دی لیکن ہم نے اس پر بھی احتجاج کیا۔
