5

مصطفیٰ عامر قتل کیس میں اہم پیش رفت

کراچی: مصطفیٰ عامر کی حب دریجی سے جھلسی ہوئی لاش ملنے کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اغوا کے بعد دوست ارمغان کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے اب حب پولیس نے ملزمان کے دریجی پہنچنے کے روٹ کا تعین کرلیا ہے۔تفتیشی حکام کے مطابق ملزمان بند مراد کے راستے لینڈانی ندی کے قریب پہنچے تھے، ملزمان نے ڈیڑھ کلو میٹر تک گاڑی  خشک ندی کے اندر چلائی، ناہموار جگہ پر گاڑی چلانے سے گاڑی کو جزوی نقصان بھی پہنچا تھا۔تفتیشی حکام کا بتانا ہے کہ گاڑی خرابی کے باعث جس مقام پر پھنسی ملزمان نے وہیں گاڑی کو آگ لگادی، جہاں ارمغان نے مصطفیٰ عامر سمیت گاڑی کو آگ لگائی وہ جگہ دریجی تھانے سے لگ بھگ 18کلو میٹر فاصلے پر ہے۔تفتیشی حکام کا مزید کہنا تھا کہ جائے وقوعہ شاہ نورانی کراس سے 45 کلو میٹر فاصلے پر ہے، گاڑی جلائے جانے کے 3 روز بعد 11 جنوری کو پولیس کو اطلاع ملی، جلی گاڑی کو مقامی چرواہے نے دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی تھییاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔کیس کی تحقیقات کے دوران تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ۔تفتیشی حکام نے بتایا تھا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔20 جنوری کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارمغان نے تفتیش کے دوران مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے، ملزم ارمغان غازی نے انکشاف کیا کہ اس نے 6 جنوری کو شیراز اور مصطفیٰ کو اپنے بنگلے پر بلایا، مصطفیٰ کے بنگلے پر پہنچنے کے بعد اس پر 2 گھنٹے تک راڈ سے تشدد کیا۔ارمغان نے تفتیش کاروں کو بیان دیا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو ہاتھوں اور پیروں پر مار کر زخمی کیا تھا، رائفل سے تین فائر کیے جو مصطفیٰ کو نہیں لگے، مصطفیٰ پر فائرنگ وارننگ دینے کے لیے کیے تھے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ 8 فروری کو پولیس کو بنگلے میں دیر سے داخل ہوتا دیکھا، بروقت دیکھ لیتا تو پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ طویل ہو سکتا تھا، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ارمغان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے۔عدالتی احکامات کے بعد گزشتہ روز مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی اور میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں کی گئی، ڈی این اے پروفائلنگ اور کراس میچنگ کے ذریعے لاش کی شناخت کرنے کے لیے کیمیائی تجزیے کے لیے مجموعی طور پر11 نمونے جمع کیے گئے۔لیکن پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید  نے بتایا کہ لاش جلنےکی وجہ سے سیمپلز سے موت کا تعین نہیں ہوسکے گا جبکہ نمونے اکٹھے کرنے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 3 سے 7 روز میں ڈی این اے کیرپورٹ آجائے گی، ڈی این اے سے صرف شناخت ہی ہوسکے گی کہ یہ مصطفیٰ کی ہی باڈی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں