30

توہین عدالت کیس:سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی ، فیصل واڈا سے جواب طلب، ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ نے توہین عدالت از خود نوٹس کیس میں رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی اور سابق وفاقی وزیر، سینیٹر فیصل واڈا سے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا جبکہ توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چینلز کو شو کاز نوٹسز جاری کردیے اور دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی طلبی پر فیصل واڈا اور مصطفی کمال عدالت میں پیش ہوئے۔ مصطفیٰ کمال نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی، ان کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی کہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں، جس پر وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفی کمال کا جواب پڑھ کر سنایا۔ وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مصطفی کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے، مصطفی کمال نے پریس کانفرنس زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی، مصطفی کمال خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ فیصل واڈا کے وکیل کہاں ہیں، فیصل واوڈا کے وکیل معیز احمد روسٹرم پر آگئے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم نامہ کیا تھا دکھائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا صاحب آپ تو سینیٹ یعنی ایوان بالا کے ممبر ہیں، سینیٹ ممبران کو تو زیادہ تہذیب یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ چلیں پہلے مصطفی کمال کا معاملہ دیکھ لیں پھر آپ کو بھی سنتے ہیں، کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واڈا سے متاثر ہو کر پریس کانفرنس کی؟ جس پر وکیل مصطفیٰ کمال فروغ نسیم نے کہا کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آئینی ادارہ ہے، قوم کو ایک قابلِ احترام عدلیہ اور فعال پارلیمنٹ چاہیے، ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 19 پڑھیں کہ کہا کہتا ہے، آرٹیکل 19 میں decency کا لفظ استعمال ہوا ہے، مزید کہا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو گالی نکال کر اور ڈرا دھمکا کر مرضی کے فیصلے لے لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہوتا بھی ہو گا مگر میرے خیال میں میرے سامنے موجود دو شخص اس میں شامل نہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کچھ لوگ عدلیہ کو گالی دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں؟ ہم لوگوں کی قدر کرتے ہیں انہیں بھی قدر عدلیہ کی قدر کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ لوگوں نے ہمیں اس لیے یہاں بٹھایا ہے کہ ہم آپس میں لڑیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی جج بے ایمانی کر رہا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس لے کر آئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام نے ججز کو انصاف کرنے اور ممبر پارلیمان کو قانون بنانے کے لیے بٹھایا ہے اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنا توہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے، پارلیمنٹ میں بھی ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ اٹارنی جنرل عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کو بھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاددلانا چاہتاہوں کہ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ اٹارنی جنرل عثمان اعوان نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے دوہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کا کیس ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا ٹی وی چینلز کے اندر کوئی معیار ہے؟ 34 منٹ پریس کانفرنس چلائی گئی مگر نامناسب الفاظ کو نہیں روکا گیا؟ کیا ہم ٹی وی چینل کو نوٹسز جاری کردیں؟ ان کا کہنا تھا کہ کیا ٹی وی چینلز 34 منٹ معافی بھی چلائیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ٹی وی چینلز کو معافی بھی 34 منٹ چلانی چاہیے۔ پیمرا نے عدالتی سماعتوں کو نشر نہ کرنے کا عجیب قانون بنایا؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ قانون آئین پاکستان کے خلاف نہیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، مگر کورٹ کی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ جس پر وکیل پیمرا نے عدالت کو بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی نے وکیل سے قران پاک سے عیب گوہی سے متعلق آیات پڑھیں، انہوں نے ریمارکس دیے کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے آجاتے ہمارے سامنے کھڑے ہو کر بات کرتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسی گالم گلوچ کسی اور ملک میں بھی ہوتی ہے، مجھے جتنی گالیاں پڑی ہیں شاید کسی کو نہ پڑی ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا، مجھے اوپر والے سے ڈر لگتا ہے مجھے جس نے گالی دی اسے بھی انصاف دینا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں