فرانس کے نوویل ایکویٹائن کے علاقے میں خشک سالی سے متاثرہ کسانوں کے لیے سرمئی آسمان ایک خوش آئند لمحہ تھا۔ لیکن اس ماہ کے شروع میں ہونے والی بارشوں نے ان زرعی پیداواری محنت کشوں کو ایک مختصر سا ریلیف ہی دیا، جنہیں پانی کی قلت کے سبب بڑھتے ہوئے تنازعات کی وجہ سے اب پریشانیوں کا سامنا ہے۔یورپ کو گزشتہ پانچ سو سال کی بد ترین خشک سالی کا سامناآبپاشی کے لیے بڑے ذخائر کی تعمیر پر ماحولیاتی مہم چلانے والوں اور کسانوں کے درمیان تناؤ نے مغربی فرانس کے اس دلکش علاقے میں دیہی برادریوں کو منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقے، جنہیں وہ ‘میگا بیسن‘ کہتے ہیں، بہت بڑے ہیں اور ان سے صرف صنعتی پیمانے پر فارمنگ کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔باسِین ناں میرسی (بی این ایم) نامی ایک غیر منافع بخش ادارہ ان فارمنگ سائٹس کو ‘پانی پر قبضہ‘ کرنے والے ایک علاقے کے نام دیتا ہے۔تاہم بہت سے کسان اس طرح کے پانی کے ذخیرے کو علاقے میں زراعت کی اقتصادی بقا اور غذائی تحفظ کی کلید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ آبی ذخائر کے خلاف مظاہروں سے مایوس ہیں، جن میں سے کچھ تو پرتشدد جھڑپوں پر بھی منتج ہوئے۔جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں، ہیٹ ایکشن پلان کی تجویزاس علاقے میں کم از کم 200 کسانوں کی نمائندگی کرنے والی امداد باہمی کی ایک تنظیم واٹر کوآپریٹیو 79 کے ایڈمنسٹریٹر فرانسوا پیٹورین کا کہنا ہے، ”(احتجاجی مظاہرے) ہم پر اور ہمارے خاندانوں پر ناقابل برداشت دباؤ ڈالتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہر کوئی ہم پر تنقید تو کرتا ہے لیکن کوئی حل کوئی پیش نہیں کرتا۔فرانس نے فروری 1959 کے بعد اپنی تاریخ کے بدترین موسم سرما کی خشک سالی کا سامنا کیا۔ اسی طرح ہمسایہ ملک اسپین بھی تین سال سے اوسط سے کم بارشوں کا شکار ہے، جس سے گھریلو استعمال، زراعت اور توانائی کی پیداوار کے لیے پانی کی فراہمی پر دباؤ پڑ رہا ہے۔جنوبی یورپ کے بیشتر حصے خشک سالی سے متاثرہ ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت یورپ میں روایتی طرز زراعت پر نظر ثانی کی متقاضی ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح محدود سپلائی بھی مختص کی جانا چاہیے۔پانی بڑھتے ہوئے تنازعات کی ایک وجہ ہے۔ کیونکہ یہ صورت حال خشک سالی کے شکار اس خطے میں پانی کی کم ہوتی دستیابی میں اس کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے کسانوں کو ہر کسی کے خلاف ایک تنازعے میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پانی کے انتظام کو بھی کس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔یورپ میں پانی کا بحران، خشک سالی سے دریا بھی خشک ہونے لگےاسپین کی یونیورسٹی آف مالاگا میں خشک سالی سے متعلقہ امور کے ماہر جیسُس وارگاس کے مطابق، ’’خشک سالی زیادہ، بار بار اور مزید شدت اختیار کرنے والی ہے، اور ہمارے پاس ایک ایسا زرعی ماڈل ہے، جو پانی کی مانگ میں مسلسل اضافہ چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال اس طرح تو نہیں رہ سکتی۔فرانس کا سرخ ہوتا ہوا ‘گرین وینس‘نوویل ایکویٹائن فرانس کا دوسرا بڑا دلدلی علاقہ ہے، جسے ‘گرین وینس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں قدرتی چشموں اور انسانوں کی بنائی ہوئی نہروں کا ایک نظام تقریباﹰ ستر ہزار ایکڑ دلدلی میدانوں اور درختوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ اب آبپاشی کے ذخائر کی تعمیر کی وجہ سےکسانوں، ماحولیاتی کارکنوں اور پالیسی سازوں کے درمیان جاری تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔جنوبی یورپ کو بدلتے موسم کا سامناان ذخائر کو ایسے پمپوں کے ذریعے بھرا جاتا ہے، جن کے لیے پانی سردیوں کے دوران ان زیر زمین آبی وسائل سے لیا جاتا ہے جنہیں موسمی بارشوں کے ذریعے دوبارہ بھرنا بھی ہوتا ہے تاکہ موسم بہار اور گرمیوں میں خشک موسموں کے دوران آبپاشی کے لیے کافی آبی ذخائر کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔لیکن اب جنوبی یورپ میں بارشیں کم سے کم قابل اعتماد ہوتی جا رہی ہیں۔اس لیے زیر زمین پانی کی دوبارہ بھرائی کی مزید کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اسی لیے ان آبی ذخائر کی تعمیر کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ پانی کی قلت فطرت اور دیگر صارفین کو متاثر کر سکتی ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر اور رواں برس مارچ میں ‘میگا بیسن‘ میں بلااجازت مظاہروں کے دوران آبی ذخائر کی تعمیر کے مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمانیں نے مظاہرین کو ‘ماحولیاتی دہشت گرد‘ قرار دیا اور اب زیر تعمیر آبی ذخائر کی جگہوں پر پہرہ دینے کے لیے پولیس کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔اگرچہ علاقے کے زیادہ تر کسانوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان آبی ذخائر کی حمایت کرتے ہیں، لیکن کچھ چھوٹے کاشتکار ایسا نہیں کرتے۔ ان چھوٹے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ بڑے صنعتی فارموں کے مقابلے میں پانی تک رسائی کے لیے پمپ اور پائپ لگانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی سکت کھوتے جا رہے ہیں۔اسپین اور انتباہکچھ ایسی ہی صورت حال اسپین کے ڈونانا وائلڈ لائف ریزرو میں بھی ہے، جو یورپ کے سب سے بڑے دلدلی علاقوں میں سے ایک ہے۔ ماحول دوست سبز مہم چلانے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جھیلیں خشک ہو چکی ہیں اور حیاتیاتی تنوع ختم ہو رہا ہے کیونکہ علاقے کو کھیتوں کی آبیاری کے لیے پانی کا رخ موڑے جانے کے عمل کا سامنا ہے۔اسپین اور فرانس نے شدید خشک سالی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین سے مالی مدد کی درخواست بھی کی ہے۔ لیکن ایسے میں جب یہ ہنگامی فنڈنگ کسانوں کو قلیل المدتی ریلیف ہی دے سکتی ہے، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر پانی اور معاش کو بچانے کے لیے ایک بڑے نظر ثانی منصوبے کی ضرورت ہے۔اسپین کی مالاگا یونیورسٹی کے خشک سالی سے متعلقہ امور کے ماہر وارگاس نے کہا کہ اب ضرورت زرعی ماڈل کو تبدیل کرنے کے بارے میں بحث کی ہے، ”ورنہ ہم ہر وقت تنازعات کا شکار ہی رہیں گے اور آخر میں بہت سے کسان اپنی زمین چھوڑ دینے پر بھی مجبور ہو جائیں گے۔مستقبل کے لیے کاشتکارینیدرلینڈز کی اُٹریشت یونیورسٹی میں ہائیڈرالوجی کے پروفیسر مارک بیرکنز نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق زراعت کو خطرے میں ڈالے بغیر اور کسانوں کا کاروبار جاری رکھنے کے لیے ایک مختلف نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر پانی کو زیر زمین ذخیرہ کرنا، سطح زمین پر آبی ذخائر بنانے سے بہتر ہے۔ بیرکنر نے مختلف طرح کی فصلوں کی کاشت پر بھی زور دیا، ”آپ کو خشک آب و ہوا میں خربوزے اور اسٹرابری نہیں اگانا چاہییں۔‘‘ محققین ایسے زرعی متبادلات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، جیسے کیروب یا باجرا، جن کی فصلیں خشک ماحولیاتی حالات کو بھی برداشت کر سکتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بیرکنز نے قانون سازی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں یورپی یونین کی طرف سے قانون سازی کلیدی حیثیت رکھتی ہے، جس کے ضوابط، بیرکنر کے بقول، بعض اوقات باہم متضاد بھی ہوتے ہیں۔اس کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کو پانی کے پائیدار استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے لیکن اس بلاک کی باقاعدہ دستخط شدہ مشترکہ زرعی پالیسی (CAP) کسانوں کو بڑے پیمانے پر فصلوں کی آبپاشی کے لیے سبسڈی بھی دیتی ہے۔
68