یورپی ملک فرانس نے گزشتہ شب ملک بھر میں 45 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے تاکہ پرتشدد مظاہروں سے نمٹا جا سکے۔ گزشتہ چوتھی رات بھی فرانس بھر میں مظاہرے ہوئے اور متعدد شہری املاک کو نذر آتش کیا گیا۔فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے مطابق بدامنی کے پھیلاؤ میں سوشل میڈیا نے کافی کردار ادا کیا ہے۔صدر نے والدین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ نوجوان کو سڑکوں اور فسادات سے دور رکھیں۔ جمعرات کی شب گرفتار کیے جانے والے تقریبا ایک ہزار افراد میں سے ایک تہائی کم عمر نوجوان ہیں۔دریں اثنا اقوام متحدہ نے فرانس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سکیورٹی فورسز میں نسل پرستی سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔دوسری جانب فرانس حکومت نے پولیس میں نسل پرستی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔سینکڑوں گاڑیاں اور عمارتیں نذر آتش فرانسیسی حکومت کے مطابق گزشتہ رات تشدد میں نسبتاً کمی پیدا ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود تقریباﹰ 80 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ منگل کے روز اس وقت شروع ہوا، جب پولیس نے الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک 17 سالہ لڑکے ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔فرانس: پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت پر ہنگاموں کا سلسلہ جاری جاری کیے گئے عارضی اعداد و شمار کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں میں 1350 گاڑیوں اور 234 عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ عوامی مقامات پر آگ لگانے کے 2560 واقعات بھی پیش آئے۔گزشتہ شب ملک بھر میں 45 ہزار پولیس اہلکار اور کمانڈوز تعینات کیے گئے لیکن اس کے باوجود لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے۔حکومتی بیان کے مطابق مارسے، لیون اور گرینوبل کے شہروں میں ”فسادیوں نے گروپوں کی صورت میں دکانوں کو لوٹنے‘‘ کا سلسلہ جاری رکھا۔پولیس ذرائع نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ دارالحکومت پیرس اور اس کے مضافات میں بارش ہونے کے باوجود فسادات جاری رہے۔ ملک گیر گرفتاریوں میں سے تقریبا نصف 406 دارالحکومت اور اس کے مضافات میں کی گئیں۔پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سترہ سالہ لڑکے کی تدفین آج بروز ہفتہ پیرس کے مضافات میں کی جا رہی ہے اور اس سے قبل سکیورٹی کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔
77