104

بھارت میں دلت صحافی اب پسماندہ طبقے کی آواز بن رہے ہیں

مینا کوتوال کا تعلق محنت کش خاندان سے ہے۔ وہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے ایک دلت محلے میں پلی بڑھی ہیں۔ صحافی بننے کے بعد انہوں نے ذرائع ابلاغ کے کئی بڑے اداروں کے لیے کام کیا۔ تاہم ایک نوجوان صحافی کے طور پر ان کے تجربات نے انہیں یہ احساس دلایا کہ اس میڈیا میں بھارتی معاشرے کے ایک بڑے حصے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے بھارت کا ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دینے کے الزام سے انکار انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے مرکزی دھارے کے بھارتی نیوز رومز میں اپنی دلت شناخت کے بوجھ کو محسوس کیا، جہاں ذات پات کا اندھا پن معمول کی بات ہے۔ اسی تفریق نے مجھے اپنا میڈیا پلیٹ فارم شروع کرنے پر مجبور کیا، جو بھارت کے اس معاشرے کی خبروں پر توجہ دیتا ہے، جو ذات پات کے سبب حاشیے پر ہیں سن 2019 میں کوتوال نے ’موک نائک‘ کے نام سے ایک آن لائن نیوز پلیٹ فارم لانچ کیا، جس کا مطلب ہوتا ہے ’’بے آوازوں کا لیڈر۔‘‘ بھارت کے متنوع سماجی طبقات سے آنے والے 14 صحافیوں پر مشتمل اس پلیٹ فارم سے، کوتوال کا مقصد، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی کہانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ایسی کہانیاں جو عموماً مرکزی دھارے کے میڈیا میں رپورٹ نہیں کی جاتی ہیں بھارتی صحافی صدیق کپّن اٹھائیس ماہ بعد جیل سے رہا پلیٹ فارم کا نام بھارتی آئین کے معمار بی آر امبیڈکر سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔ کوتوال اپنا نیوز روم ان عطیات کے ذریعے چلاتی ہیں، جو انہیں کراؤڈ فنڈنگ سے ملتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں ’گوگل نیوز انیشیٹیو‘ سے بھی فنڈنگ حاصل ہوئی ہے ٹی وی چینلز نفرت انگیز مواد نشر کر رہے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ یہ نیوز آؤٹ لٹ دہلی کے اسی دلت محلے ’پشپا بھون‘ سے چلایا جاتا ہے اسی علاقے میں مینا کوتوال بڑی ہوئی ہیں۔ ’موک نائک‘ وسیع تر رسائی کے لیے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں مضامین شائع کرتا ہے۔ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ویڈیوز بھی شوٹ کرتے ہیں، جس کا مقصد ان کہانیوں کا احاطہ کرنا ہے، جو دلتوں کو درپیش مظالم اور سماجی ناانصافیوں پر مبنی ہوتی ہیں اور دوسرے انہیں جگہ نہیں دیتے ہیں بھارت میں ذات پات پر مبنی نیوز روم ہندوؤں کا ذات پات کا نظام ہزاروں برس پرانا ہے اور تقریباً 300 ملین دلتوں کو آج بھی نچلے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے
نام نہاد اعلیٰ ذاتیں دلتوں کے لیے “اچھوت” جیسی توہین آمیز اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ جب کہ بھارتی آئین میں اچھوت کے رواج کو ممنوع اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم دلت اب بھی ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کا شکار ہیں اکتوبر 2022 میں آکسفیم اور بھارتی ڈیجیٹل نیوز آؤٹ لٹ ‘نیوز لانڈری’ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بھارتی نیوز رومز میں دلتوں کی غیر متناسب نمائندگی کا انکشاف کیا گیا تھا رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں بھارت کے تقریباً 88 فیصد صحافی ’اونچی ذات‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ایک اور دلت صحافی اشوکا داس نے بھی ماہانہ میگزین اور نیوز پورٹل ’دلت دستک‘ کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد خبروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے دلت سماج کے بارے میں بیداری پھیلانا ہے داس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارتی اداروں، بشمول عدلیہ اور تعلیمی اداروں، میں اونچی ذات کی گیٹ کیپنگ عام ہے یہاں میڈیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے’اعلیٰ ذات‘ کے غلبے والے بھارتی نیوز رومز میں ایک دلت صحافی کے طور پر ان کے تجربے نے داس کو یہ احساس دلایا کہ کس طرح ان کی شناخت نے ان کے لیے حدود پیدا کی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آپ کسی خاص عہدے سے اوپر نہیں اٹھ سکتے۔ آپ کی ترقی میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور یہ واضح طور پر آپ کی ذات کی شناخت کی وجہ سے ہوتا ہے دلت میڈیا کے لیے چیلنجز
سن 2012 میں داس نے ’دلت دستک‘ کا آغاز کیا تھا تاکہ دلت ایسے مسائل کے لیے ایک جگہ فراہم کی جا سکے، جو مین اسٹریم میڈیا میں، موجود نہیں ہوتے ہیں۔ اس وقت سے، پلیٹ فارم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اسے فنڈز تلاش کرنے اور ایک مستحکم ٹیم کو برقرار رکھنے جیسے طویل چیلنجوں کا سامنا ہے ان متبادل دلت میڈیا آؤٹ لیٹس کے علاوہ، دیگر میڈیا اقدامات جیسے ’راؤنڈ ٹیبل انڈیا‘، اور ’دی دلت وائس‘ جیسے پلیٹ فارم کا ابھرنا بھی شامل ہے، جو بھارتی شہریوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے مقصد سے، دلت مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں آکسفیم اور ’نیوز لانڈری‘ کی رپورٹ کے مطابق ایڈیٹر انچیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکیٹو ایڈیٹر، بیورو چیف اور ان پٹ/ آؤٹ پٹ ایڈیٹر سمیت نیوز روم کے 121 اہم عہدوں کا جائزہ لیا گیا، جس میں سے 106 عہدے ’اعلیٰ ذات‘ کے صحافیوں کے پاس ہیں صرف پانچ عہدے دیگر ذاتوں کے پاس ہیں اور چھ اقلیتی برادریوں کے صحافیوں کے پاس ہیں۔ باقی چار افراد کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی نئی دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ہریش وانکھیڑے کی تحقیق بھارتی میڈیا میں ذات پات پر مرکوز تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی دھارے کے میڈیا کی طرف سے دلت مسائل کی کوریج ’’پریشان کن‘‘ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک متبادل کے طور پر دلت میڈیا کا ابھرنا بہت اہم ہے تاکہ مین اسٹریم میڈیا کے غالب بیانیے کو چیلنج کیا جا سکے، جو ہمیشہ دلتوں کے خلاف مظالم کو اور دلت نقطہ نظر کو اپنی کہانیوں میں دفن کر دیتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں