79

سویڈن: عید الاضحی کے موقع پر مسجد کے باہر قرآن نذر آتش

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر کھڑے ہوکر ایک شخص نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو نذر آتش کیا۔ اس احتجاج میں کل چار افراد شریک تھے۔ یہ واقعہ 28 جون بدھ کے روز اس وقت رونما ہوا، جب مسلمانوں نے عید الاضحیٰ کے اپنے تہوار کو منانے کا آغاز کیا تھا۔سویڈش سفارت خانے کا سرگرمیاں معطل کرنے پر پاکستان کا ردعملسویڈن کے سرکاری نشریاتی ادارے ایس وی ٹی نے اطلاع دی کہ جس شخص نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی اجازت طلب کی تھی، وہ 30 سالہ ایک عراقی مہاجر ہے، جو قرآن پر پابندی چاہتا ہے۔سویڈن میں قرآن سوزی سے متعلق ریلی پر پابندیملک کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس عراقی مہاجر نے نے پہلے قرآن کے کچھ صفحات پھاڑ کر اپنے جوتے صاف کیے اور پھر بعض صفحات کو آگ لگا دی۔بعد ازاں پولیس نے قرآن کی جلد کو آگ لگانے والے شخص پر ایک نسلی اور قومی گروپ کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے رپورٹ درج کر لی ہے۔قرآن جلانے والوں کے خلاف سخت جوابی اقدامات کریں، او آئی سیاس منظر کو دیکھنے کے لیے تقریباً 200 افراد وہاں جمع ہوئے، جن میں سے کچھ اس کی مخالفت کرنے والے مظاہرین بھی تھے۔ اس موقع پر ایک شخص کو پتھراؤ کرنے کی کوشش کے الزام میں حراست میں بھی لیا گیا۔ سویڈن میں شاذ و نادر ہی مظاہروں پر پابندی عائد کی جاتی ہے، چاہے مظاہرے دوسرے ممالک میں اشتعال انگیزی کا سبب ہی کیوں نہ بن جائیں۔ڈنمارک: مسجد اور ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن جلانے کا واقعہ ترکی کا رد عملمترکی نیٹو میں سویڈن کی شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے اور قرآن کے ایک نسخے کو جلانے کے اس واقعے کے بعد اسٹاک ہوم کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں کو مزید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سویڈن میں چند ماہ قبل بھی قرآن جلانے کا ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا اور اس وقت ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ سویڈن کو اتحاد میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے۔بدھ کے روز ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے لکھا، ’’میں سویڈن میں عید الاضحی کے پہلے دن ہماری مقدس کتاب قرآن کے خلاف ہونے والی گھناؤنی کارروائی کی مذمت کرتا ہوں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادی اظہار کے بہانے اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف کارروائیوں کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے۔اس طرح کی ظالمانہ حرکتوں سے آنکھیں چرانا بھی جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔سویڈن نے کیا کہا؟سویڈن کی عدالت نے کہا کہ سکیورٹی مسائل اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جانے والے اجتماعات کے درمیان واضح تعلق ہونا چاہیے، تاہم پولیس نے ایسا کچھ نہیں سمجھا۔ عدالت نے کہا کہ حکام نے قرآن کو نذر آتش کرنے سے متعلق جو سکیورٹی خطرات اور نتائج دیکھے، وہ اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ موجودہ قانون کے مطابق عام اجتماع کی درخواست کو مسترد کرنے کے فیصلے کی وہ بنیاد فراہم کریں۔اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اسی لیے پولیس حکام آپ کو درخواست کردہ اجتماع کی اجازت دی جاتی ہے۔ویڈن میں قرآن جلانے کا مسئلہسویڈن میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن کو نذر آتش کرنا ایک اہم موضوع بنتا جا رہا ہے۔ ڈینش۔ سویڈش انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان راسموس پالوڈان نے ایسی کارروائیوں سے سیاست میں اپنا نام روشن کر لیا ہے۔تاہم بدھ کی کارروائی کے پیچھے پالوڈان نہیں تھے۔سویڈن میں شاذ و نادر ہی مظاہروں، یا کتابوں کو جلانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اس سے قبل انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ اس کی وجہ سے ترکی نے سویڈن کے وزیر دفاع کا دورہ انقرہ منسوخ کر دیا تھا اور صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ اب سویڈن کو ترکی کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔سویڈن کے وزیر اعظم نیٹو کی رکنیت کے لیے اب بھی پرامیدرکی کی مسلسل مخالفت اور قرآن کو بار بار جلانے کے واقعات کے باوجود سویڈش وزیر اعظم اُلف کرِسٹرسن اس بات پر قائم ہیں کہ سویڈن نیٹو میں شامل ہو سکے گا۔ انہوں نے ایس وی ٹی سے بات چیت کے دوران کہا کہ سویڈن نیٹو کا رکن بن جائے گا۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ آئندہ برس ولنیئس میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے وقت تک ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ان کا کہنا تھا، ’’ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس بات کا احترام کرتے ہیں کہ ترکی ہی ترکی کے فیصلے کرتا ہے اور یہ اچھا ہے کہ اب ہماری ایک اور میٹنگ ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم اس قسم کی گفتگو میں ولنیئس سربراہی اجلاس سے پہلے عجیب و غریب سوالیہ نشان کو حل کر سکیں۔‘‘بدھ کے روز قرآن جلانے کے بارے میں کرسٹرسن نے کہا کہ وہ اس بارے میں قیاس نہیں کرنا نہیں چاہیں گے کہ اس سے سویڈن کے نیٹو کے امکانات پر کیا اثر پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ قانونی تو ہے لیکن مناسب نہیں ہے۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں