62

پاکستان؛ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح والا ملک بن گیا

کراچی : پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح والا ملک بن گیا۔ نجی ٹی وی چینل سما نیوز کے مطابق پاکستان میں بنیادی شرح سود 22 فیصد کی بلندترین سطح پر جا پہنچی، مانیٹری پالیسی کمیٹی کی اہلیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے رواں ماہ ہی شرح سود اکیس فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم دو ہفتے بعد ہی اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے اچانک ماینٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور شرح سود ایک فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا تاجر برادری نے شرح سود میں اضافے کو مکمل طور پر مسترد اورفیصلے پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے ورنہ کاروبار اور صنعتوں کو تالے لگ جائیں گے معاشی حلقوں میں شرح سود اچانک بڑھنے کے پیچھے آئی ایم ایف کی شرط کو قرار دیا جارہا ہے اور اس کو حکومت کے ہر حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کرنے سے جوڑا جارہا ہے شرح سود بڑھانے سے صرف تین دن قبل اسٹیٹ بینک نے اپنے پاس صرف ساڑھے تین ارب ڈالر کے کم ترین ڈالر ذخائر رہ جانے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے تمام قسم کی درآمدات پر سے پابندی اٹھالی ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کے برابر بھی ڈالر کا ذخیرہ نہیں ہے۔ ماہرین اسٹیٹ بینک کے شرح سود بڑھانے کی دلیل پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا گھٹنا بڑھنا قیمتوں پر منحصر ہوتا ہے جس کا شرح سود سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا جبکہ شرح سود بڑھنے کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہوتا ہے جس کے قرضوں پر بیٹھے بٹھائے سود کی مد میں اربوں روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اسٹیٹ بینک ہر بار یہ کہہ کر شرح سود بڑھاتا ہے اور اسے 7 فیصد سے 22 فیصد پر پہنچا چکا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود بڑھائی جارہی ہے تو پھر پاکستان میں مجموعی مہنگائی 38 فیصد اور غذائی اشیا کی مہنگائی 45 فیصد کے ریکارڈ بنارہی ہے کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرض کچھ اور ہے اور اسٹیٹ بینک صحیح تشخیص نہ کرکے خود اپنی ساکھ دائو پر لگا چکا ہے ۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں حالیہ تبدیلیوں کے تحت ٹیکسز اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں دس روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے جس سے ممکنہ طور پر مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے اس لئے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود بڑھانی پڑی۔ خیال رہے کہ ملک میں مئی کے دوران مہنگائی 38 فیصد پر رہی جس کے بعد مہنگائی نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے،توقع ہے کہ جون اور اس کے بعد مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو گی جبکہ گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کی ان کیمرہ بریفنگ میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 3 ارب ڈالرز کے قرضے دیے جانے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ مرکزی بینک کے حکام کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے دور میں قرض اسکیم کے تحت 3 ارب ڈالرز کے قرضے دیے گئے،یہ قرضے 5 فیصد کی شرح سود پر دیے گئے تھے، جبکہ اس وقت مارکیٹ میں شرح سود 7 فیصد تھی
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ چند حکومتی رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں چند شخصیات کو صفر شرح سود پر 3 ارب ڈالرز کا قرضہ دیا گیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی جانب سے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک سے رپورٹ طلب کی گئی تھی، جس کے بعد مرکزی بینک حکام نے اعداد و شمار بتائے، اسٹیٹ بینک نے ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے تھ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں