36

پاکستانی: معاشرہ اور عمومی سماجی رویے

مہذب معاشروں میں یہی اختلاف رائے، نظریات کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور انسانی نظریات کا باہمی احترام ہی معاشرتی نمو کو ایک سمت عطا کرتا ہے، ورنہ بے سمت معاشرہ جمود کا شکار ہو کر اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے۔یہاں تک تو یہ بات بہت ہی سادہ اور عام فہم ہے۔ لیکن چند آفاقی حقائق ایسے بھی ہیں، جن کے ساتھ سمجھوتہ نا گزیر ہے۔جیسا کہ، جہاں دو انسان موجود ہیں وہاں اختلاف رائے ضرور ہو گا اور طاقت ور اپنی رائے کو منوانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرے گا۔ ایسے میں کم زور کے لیے بچ نکلنے کا واحد راستہ سیاسی درستی (political correctness) کا سہارا لینا ہے۔کسی معاملے پر مروجہ معاشرتی رواج کو اپنانے کے لیے دل و دماغ آمادہ نہ بھی ہوں لیکن تب بھی ان پر کار بند رہنا بقا کے لیے ضروری ہے کہ اقدار سے بغاوت بھی طاقت ور کو ہی زیبا ہے۔اسی طرح کا ایک نظریہ حقوق نسواں بھی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کو محکوم اور مجبور طبقہ سمجھا جاتا ہے، جو پدرسری روایات کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہی ہے۔ لیکن تجزیے کے درست اور منصفانہ نتائج کے لیے دیوار کے اس پار دیکھنا بھی ضروری ہے۔دنیا بھر میں شروع ہوئی حقوق نسواں کی تحریکوں نے پاکستان کے روایتی معاشرے کے جمود کو بھی توڑا ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین میں اپنے حقوق کے متعلق آگاہی کو ایک نئی سمت عطا ہوئی۔لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ حقوق سے آگاہی نے سماجی فرائض کی ادائی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرسودہ روایت کے پالن میں زیادہ کردار بھی اسی طبقے کا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ عورت جو جہیز کو ایک لعنت سمجھتی ہے، کیا وہ خود اس رواج سے دست بردار ہونے کو تیار ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہر کسی کو یہی کہتے سنا کہ جہیز ایک لعنت ہے۔لکھنے والوں نے اس پر کیا کچھ نہیں لکھا، لیکن عملی طور پر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ معاشرے کی تمام اکائیاں نصابی طور پر ایک سماجی معاملے پر متفق ہیں تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں کہ عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔چند ہفتے قبل میری ایک قریبی عزیزہ کی شادی کی تقریب با احسن انجام پائی۔ لڑکی نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بل کہ ایک باعزت ملازمت بھی کر رہی ہے۔شادی کے معاملات طے کرتے ہوئے جہیز اور دیگر رسومات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا لیکن دولہا اور اس کے والد کا یک زبان جواب تھا کہ وہ تقریبات کو سادہ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کسی قسم کے جہیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن چند دنوں بعد صورت حال بالکل مختلف ہو گئی۔ دولہا کی ماں اور بہنوں نے اشاروں کنایوں میں یہ پیغام پہنچانا شروع کر دیا کہ وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سادگی کا مظاہرہ کرنے سے ان کی ناک کٹ جائے گی۔لہذا بات تقریب کو ممکنہ حد تک سادہ رکھنے سے شروع ہوتے اس حد تک جا پہنچی، جہاں اخراجات ایک بوجھ محسوس ہونے لگے۔ دوسری طرف دلہن کی خواہش کے مطابق میک اپ اور عروسی ملبوسات پر بھی ایک کثیر رقم خرچ ہوئی۔میری رائے میں شادی ایک خوشی اور امید کا بندھن ہے، جس میں دو افراد ایک ایسے رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں جو بنی نوع انسان کی ارتقاء میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ایک نیا سفر جس کی ابتداء کو یاد گار اور خوب صورت بنانا ہر جوڑے کا حق ہے اور بیاہ شادی پر وسائل کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرنے میں بہ ظاہر کوئی حرج نہیں لیکن معاملات تب بگڑتے ہیں، جب توازن کو فراموش کر دیا جائے۔وہ بیش قیمت لباس جنہیں صرف چند گھنٹے کے لیے زیب تن کر کے فوٹو شوٹ کی رسم ادا کی گئی وہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صندوقوں میں بند پڑے رہیں گے اور وہ خطیر رقم جو ان کی خریداری پر صرف ہوئی بہ ظاہر ضائع ہو چکی ہے۔صرف خاندان برادری میں اپنا بھرم رکھنے کے لیے پانی کی طرح بہائے گئے پیسے کے کہیں بہتر مصارف ہو سکتے تھے لیکن اس میں خواتین کی ضد اور انا آڑے آئی، جس کے سامنے گھر کے مرد خود کو بے بس پاتے ہیں۔ وہ پڑھی لکھی اور بہ ظاہر با شعور عورتیں جو زمانے کو بدل دینے کی خواہش رکھتی ہیں اس تقریب کو سادہ رکھنے کے فیصلے میں شامل کیوں نہ ہو سکیں۔یہ محض ایک خاندان کا قصہ نہیں ہے بل کہ، عمومی سماجی رویے کی عکاسی ہے۔ایسے میں یہ جائزہ ضروری ہے کہ سیاسی طور پر درست رہنے کی فکر سے آزاد ہو کر ایک آزادانہ تجزیہ کیا جائے کہ، پاکستانی معاشرے میں عورت اور مرد کی سوچ میں اس قدر تضاد کیوں ہے اور صنفی تقسیم سے بچتے ہوئے کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے؟عورت اور مرد کو قدرت نے مختلف کردار تفویض کر دیے ہیں اور سماجی نمو کے لیے دونوں کا باہم مل کر اپنا اپنا کردار نبھانا ضروری ہے۔ترقی پذیر معاشروں میں جہاں مرد کے ہاتھ معاشی وسائل کا کنٹرول ہے وہاں روایتی گھریلو فیصلوں اور اولاد کی تربیت پر عورت کا اختیار اسے ایک ایسی قوت دیتا ہے جس کا توڑ مردوں کے پاس نہیں۔ اگر یہ دونوں اصناف باہم پیکار رہیں تو ترقی کا وہ خواب جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ پورا ہو سکے گا؟فرسودہ روایات جن سے ہم سب جان چھڑوانا چاہتے ہیں ان سے بچا جا سکے گا ؟ نظریات کا ٹکراؤ کیوں کر کسی درمیانے راستے تک پہنچ پائے گا؟ سوچنے کا وقت یہی ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں