32

ای سی ایل میں نام ڈالنے پر حکومت کا مشکور ہوں، عمران خان

پاکستان : تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے جانے پر حکومت کو شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے سیکنٹروں قریبی رفقاء کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کے نام ای سی ایل لسٹ میں ڈال دیے۔عمران خان نے اس حکومتی اقدام کے جواب میں ٹوئٹر پر اپنے رد عمل میں لکھا کہ،” میں اپنا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرا بیرون ملک سفر کا کوئی اراداہ نہیں، نہ ہی ملک سے باہر میری کوئی جائیدادیں یا کاروبار ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ”اگر کبھی مجھے تعطیل گزارنے کا کوئی موقع ملا تو ہمارے شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں میں ہو گا، جو اس زمیں پر میرا پسندیدہ ترین مقام ہے۔قبل ازیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے امیگریشن حکام نے عمران خان ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت پی ٹی آئی کے 500 سے زائد رہنماؤں اور اراکین کے نام بھی ای سی ایل میں شامل کر دیے۔یہ حکومتی اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب نو مئی کو احتجاجی مظاہروں کے دوران آرمی ہیڈ کوارٹر سمیت اہم فوجی تنصیبات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے دھاوا بولے جانے کے بعد سے عمران خان کے لیے قانونی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔ان پرتشدد واقعات کے بعد سے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے تقریباً ایک سو سابق قانون ساز خود کو عمران خان سے علیحدہ کرنے کے اعلانات کر چکے ہیں۔ حکومتی کریک ڈاؤن میں عمران خان کے سات ہزار سے زائد حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو ملک کی متنازعہ فوجی عدالتوں میں سمری ٹرائل کا سامنا ہے۔اس اقدام پر انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے تنقید کی ہے۔ ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے ڈی پی اے کو بتایا، ”یہ ہر کیس میں ایک معمول کا عمل ہے۔ عدالتی مقدمات کا سامنا کرنے والے تمام افراد کو ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا ہے۔‘‘خود عمران خان کی حکومت نے سن 2018 اور 2022 کے درمیان اپوزیشن کے کئی رہنماؤں کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ادھر حکومتی وزراء اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس اقدام سے ایک ایسے ملک میں سیاسی افراتفری میں مزید اضافے کا امکان ہے، جو پہلے اقتصادی دیوالیہ پن اور عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں