84

کئی چاند تھے سرِ آسماں

اسلام آباد : سوال یہ ہے کہ پاکستان میں رمضان اور عیدین کے موقع پر چاند کی رویت سے جڑے اختلافات کی وجہ کیا ہے؟ وسعت اللہ خان کے اس کالم میں کئی دہائیوں سے جاری اس جھگڑے کی بنیاد تک پہنچتے ہیں۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الدین کی اٹھائیسویں روزے ( بروز بدھ ) پر سوشل میڈیا پرعام ہونے والی وڈیو کا قصہ تو آپ تک پہنچ ہی گیا ہوگا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یکم شوال کا چاند نظر نہیں آیا لہذا عید سنیچر کو ہو گی۔اس وڈیو پر جب ہنگامہ ہوا تو مفتی صاحب نے وضاحت فرمائی کہ ہمیشہ ٹی وی کے لیے دو وڈیوز پیشگی ریکارڈ کی جاتی ہیں تاکہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کی صورت میں کوئی ایک ویڈیو بروقت نشر ہو سکے لیکن اس بار کسی شرپسند نے ایک وڈیو لیک کر دی۔مگر وڈیو لیک نہ بھی ہوتی تب بھی کون سا ایک عید ہوتی۔کشمیر میں اکثریت پاکستان میں چاند نظر آنے کے اعلان کی پیروی کرتی ہے اور ریاست کے کچھ حصوں میں لوگ بھارت میں چڑھنے والے چاند پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔خود پاکستان میں بھی وہ سال بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جب صرف ایک دن ہی پہلا روزہ یا عید ہو۔ دو عیدیں ہونا معمول کا چلن ہو چلا ہے اور جب تین عیدیں ہوتی ہیں تب کچھ لوگوں کو قدرے حیرت ہوتی ہے ۔کچھ سادہ لوح پوچھتے ہیں آخر سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں اور ایران میں کیوں دو عیدیں نہیں ہوتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کا نظام و انصرام اور ریاستی گرفت ایسی تیز دھار ہے کہ کسی کو انفرادی طور پر سرکاری چاند کے مقابل متوازی چاند نکالنے کی جرات کم ہی ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں کسی بھی چاند کو چار چاند لگا دینا ہمارے جمہوری مزاج کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں چاند نکلتا کم ہے چڑھایا زیادہ جاتا ہے ۔ایک اور سوال پوچھا جاتا ہے کہ اکثر رمضان اور عیدین کے چاند پر ہی کیوں اختلاف ہوتا ہے ؟ محرم سمیت باقی نو قمری مہینوں میں سب فرقوں کا عموماً ایک چاند پر کیسے گذارہ ہو جاتا ہے ؟مجھ کم عقل کو تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ ان تین مذکورہ چاندوں کا تعلق براہ راست کھانے پینے سے ہے اور چونکہ ان تین چاندوں کے نظر آنے نہ آنے کے منتظر کروڑوں لوگ ہوتے ہیں اور تمام کیمروں کا رخ سرکردہ علما کے مبارک چہروں کی جانب ہوتا ہے اور خبروں میں رہنے کا شوق کسے نہیں ہوتا ؟ تو یہ سب اسباب مل ملا کے فیصلہ سازوں کی چاندی کر دیتے ہیں اور اکثر فیصلے ایسے ہوتے ہیں کہ ان علما کے معتقدین اور مقلدین بھی چندیا کھجاتے رہ جاتے ہیں۔خود رویت ہلال کمیٹی کے معزز ارکان بھی بلند و بالا چھت پر ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کے بجائے محکمہ موسمیات کی دور بینوں کا سہارا لے کے ہی چاند ٹٹولتے ہیں۔ اگر صاحبانِ اجتہاد کو بھی چاند دیکھنے کے لیے دوربین کی محتاجی ہے تو پھر یہ معاملہ فلکیاتی ماہرین اور چاند سورج کے گردشی کیلنڈر پر چھوڑنا کہیں بہتر ہو گا تاکہ ہر سال کی چھیچھا لیدر سے بچا جا سکے۔مگر پھر زندگی میں مزہ ہی کیا رہا اگر ہر مسئلے کا آسان اور سیدھا سیدھا حل نکل آئے۔انیس سو چوہتر میں ہر سال کی چاند ماری سے بچنے کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کے تحت مرکزی اور صوبائی رویتِ ہلال کمیٹیوں کا ایک منظم ڈھانچا قائم کیا گیا۔ ان کمیٹیوں میں تمام قابلِ ذکر مکاتبِ فکر کے علما شامل کرنے کی کوشش ہوئی۔اس قمری ڈھانچے کے قیام کا مقصد ایوبی دور کی دھماچوکڑی سے بچنا تھا۔جب مولانا احتشام الحق تھانوی کی سربراہی میں ایک نیم سرکاری کمیٹی چاند دیکھا کرتی تھی۔ مگر اس کمیٹی اور ایوبی حکومت اور حکومت اور کمیٹی کے مخالف علما کی آپس میں کم ہی بنتی تھی۔اس دور میں کراچی آمریت کے خلاف مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اہلیانِ کراچی کی یہ اجتماعی نفسیات ہو گئی تھی کہ بقولِ جون ایلیاجس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرارہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بخدا نہیں کیاچنانچہ آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ انیس سو اٹھاون ، اکسٹھ ، باسٹھ اور اڑسٹھ میں کراچی ، بقیہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں الگ الگ تین تین چاند بھی نکلے ۔انیس سو اڑسٹھ میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی کسی نے انہیں پٹی پڑھا دی کہ جمعہ کی عید حکمران کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ ایک دن میں دو خطبے بھاری پڑ سکتے ہیں۔ چنانچہ سرکار کی جانب سے بدھ کی شام اعلان کر دیا گا کہ جمعرات کو عید ہے۔ لیکن علما نے رات گئے اعلان کیا کہ چاند نہیں نکلا لہذا عید جمعہ کو ہو گی۔سرکار نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ کراچی کے پولو گراؤنڈ میں جمعہ کے بجائے جمعرات کو نمازِ عید کا اہتمام کیا اور ایک مفتی صاحب کو امامت کے لیے لایا گیا۔جب نمازی سجدے میں گئے تو مفتی صاحب چمپت ہو گئے۔جب سجدہ غیر معمولی طویل ہو گیا تو کسی نے سر اٹھا کے حالات کا جائزہ لیا تب پتہ چلا کہ جائے امام خالی است۔لیکن انیس سو چوہتر میں رویتِ ہلال کا مرکزی نظام قائم ہونے کے باوجود بھی حالات میں کوئی خاص سدھار نہیں آیا۔کمیٹی کے چیرمین کی مدت تین برس مقرر کی گئی مگر مفتی منیب الرحمان انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار بیس تک کمیٹی کی سربراہی پر ڈٹے رہے۔گزشتہ دورِ حکومت میں مفتی صاحب کی جبری سبک دوشی کے بعد بادشاہی مسجد کے امام مولانا عبدالکبیر آزاد کمیٹی کے سربراہ نامزد ہوئے۔رویت ہلال کمیٹی میں پندرہ علما کے علاوہ ایک ایک رکن وزارتِ مذہبی امور ، سپارکو ، محکمہ موسمیات ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی نمائندگی کرتا ہے۔ چار زونل کمیٹیاں بھی ہیں جو مرکزی کمیٹی سے رابطے میں رہتی ہیں۔مگر یہ سارا تام جھام ایک طرف اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کی پونے دو سو برس پرانی مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی دوسری طرف۔کئی برس سے ہزارہ ڈویژن کو چھوڑ کے باقی خیبر پختونخواہ مفتی پوپلزئی کے چاند پر بھروسا کر رہا ہے۔ دو ہزار سترہ میں پوپلزئی صاحب کو کسی نہ کسی طرح رمضان میں عمرے پر جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تاکہ وہ دوسرا چاند نہ نکالیں۔ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کتاب ، ایک ملک ، ایک قوم ، ایک زبان اپنی جگہ مگر ایک چاند ؟؟انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ، کسی انوکھی بات رے۔(شکر ہے اس بار پاکستان میں صرف ایک چاند کی عید منائی جا رہی ہے۔مگر کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ بقر عید یا اگلے برس بھی یہی ہوگا۔)نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں