اسلام آباد : بھارتی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی ایک وجہ معاشی اور سماجی طور پر اس برادری کی پسماندگی اور پھر مبینہ طور پر نظام انصاف کا ان کی تئیں تعصب بھی ہے۔ کئی سابق قیدیوں اور دہلی میں ایشیاء کی سب سے بڑی جیل یعنی تہاڑ جیل کے افسران سے بات چیت کرتے ہوئے پتا چلا کہ چونکہ مسلمان ایک بڑی تعداد میں جیلوں میں بند ہیں، اس لیے رمضان کی آمد سے قبل ہی خصوصی تیاریاں کی جاتی ہیں۔کئی سابق قیدیوں کے مطابق جیل افسران کا رویہ حیرت انگیز طور پر خوشگوار ہو جاتا ہے اور مسلم قیدیوں کو روزانہ جیل کے کام و کاج سے چھٹی مل جاتی ہے۔ یہ معلوم ہونے پر بھی کہ عید کے بعد یہ عیاشی ختم ہو جائے گی، قیدی اس دن کا بے صبری کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، تہاڑ جیل کے ایک سابق افسر سنیل گپتا نے بتایا کہ یہ دن انتہائی جذباتی ہوتا ہے۔قیدی اس دن اپنے احباب و اقارب کو یاد کرتے ہوئے خاصے جذباتی ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر اور عید کی مبارکباد دیتے ہوئے رو تے بلکتے ہیں۔ گپتا کا مزید کہنا ہے کہ تہاڑ ایک طرح سے ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہاں پر آٹھ مختلف جیل ہیں اور جن میں کم و بیش 15 سے 20 ہزار قیدی ہیں۔تہاڑ جیل میں نو ماہ تک قید رہنے والے صحافی اور مصنف افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ رمضان کے دوران خاص طور پر سحری کے وقت قیدیوں کو اچھا تڑکے والا کھانا ملتا ہے، جو ایک طرح کی عیاشی ہے، ’’بقیہ دنوں پھیکا، پانی کے اوپر تیرتی ہوئی دال یا سبزی کھانے کو ملتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ تہاڑ کی جیل نمبر تین میں قید تھے، تو عید کی آمد سے قبل قیدیوں نے جیل حکام سے استدعا کی کہ اس دن صبح ناشتہ میں سویاں پکوائی جائیں۔بقول ان کے جیل حکام نے ان سے کہا کہ ہفتے میں دو دن جو کھیر بنتی ہے، وہ اس دودھ میں سویاں پکا کر دینے کے لیے تو تیار ہیں، مگر دیگر چیزوں کا خرچہ قیدیوں کو خود اٹھانا پڑے گا، ”خیر عید سے قبل تقریبا 12,000 روپے کے کوپن (کیونکہ جیل میں کرنسی کی ممانعت ہے) جمع کر کے جیل حکام کے حوالے کیے گئے، تاکہ وہ سویاں اور خشک میوے اور دیگر لوازمات خرید کر ان کو لنگر کے حوالے کر دیں۔‘‘ افتخار گیلانی کے بقول عید کی صبح تک قیدی سویوں کے نام پر بار بار ہونٹوں پر زبان پھیرتے تھے، ”خیر اس دن ان کے وارڈ کی ایک بیرک، جو دراصل ایک کلاس روم تھا، کو خالی کیا گیا اور اس میں نماز عید ادا کی گئی۔‘‘ایک دوسرے کو گلے لگانے اور جذباتی مناظر کے بعد، جب سویاں تقسیم ہوئیں، تو معلوم ہوا کہ ان کو بس گرم پانی میں پکایا گیا ہے۔دودھ کا نام و نشان کہیں نہیں تھا۔ خشک میوے اور دیگر لوازمات کا کچھ اتاپتہ نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے پانی میں گرم کی ہوئی سویاں حلق سے اتارنی پڑی۔‘‘جیل میں جو کھانا آپ کے لیے آیا ہے، اس کو کھانا ہی پڑتا ہے۔ اس کو پھینکنا جرم کے زمر ے میں آتا ہے اور اس کے لیے کڑی سزا دی جاتی ہے۔سنیل گپتا کے بقول تڑکے والا کھانا سرو کرنے کی وجہ سے کئی غیر مسلم بھی روزے داروں میں اپنا نام لکھوا دیتے ہیں۔گپتا کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ قیدی دن رات ایک ساتھ رہتے ہیں، اس لیےآپس میں رواداری اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور کئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سن 1975-1977کے درمیان ایمرجنسی کے دنوں میں جب جماعت اسلامی، کمیونسٹ اور ہندو قوم پرست جن سنگھ، آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے لیڈران کو ایک ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا، تو ان کی انوکھی فرینڈشپ کا آغاز ہوا۔ان کی آپس کی بات چیت نے جنتا پارٹی کو جنم دیا، جس نے اگلے انتخابات میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بری طرح شکست دی۔غیر مسلموں کے روزہ رکھنے کے حوالے سے گیلانی ایک دلچسپ واقعہ بتاتے ہیں۔ ان کی بیرک میں قید ایک کشمیری ہندو انجینیر نے جب سحری میں تڑکے والا کھانا دیکھا، تو اس نے بھی روزہ داروں میں اپنا نام لکھوا دیا، ’’خیر سحری میں اس نے تڑکے والا کھانا تو کھایا، مگر جوں جوں دن نکلتا جا رہا تھا، اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔وہ حیرا ن و پریشان تھا کہ پانی، چائے وغیرہ کے بغیر ہم کیسے گزارہ کرتے ہیں اور بالکل نارمل افراد کی طرح رہتے ہیں۔ دوپہر تک تو وہ تقریباً بے ہوش ہو چکا تھا۔ بے حد اصرار پر ہم نے اس کا روزہ تڑوایا اور اس کو کہا کہ بچپن میں ہم ایسے ہی دوپہر تک روزہ رکھتے تھے۔ تب جا کر اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ مگر روزے داروں کی فہرست سے نام نکالنا اس کو خاصا بھاری پڑا۔کیونکہ جیل حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی روزہ رکھتے ہیں اور اس لسٹ میں اس پنڈت جی کا نام بھی تھا۔‘‘ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے معروف صحافی گیلانی کہتے ہیں کہ ان کی بیرک کے 50 قیدیوں میں سے سات یا آٹھ کے قریب مسلمان تھے اور انہوں نے بیرک کے ایک کونے کو صاف کرکے نماز تراویح ادا کرنے کا اہتمام کیا۔اس دن ان کو معلوم ہوا کہ بیرک کا ایک قیدی تو حافظ قرآن ہے، ” اس کا شمار دبنگ قیدیوں میں ہوتا تھا۔ اس جیسے قیدیوں کے ساتھ نہ دوستی اور نہ ہی دشمنی اچھی ہوتی ہے۔ان سے جنتا دور رہا جائے، اتنا اچھا ہوتا ہے۔ معلوم ہو اکہ یہ حضرت مدرسے کے فارغ ہیں اور بعد میں منشیات کی دنیا میں آ کر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ پورے ماہ انہوں نے تراویح کی امامت کی۔وہ نہ صرف حافظ قرآن تھے، بلکہ خوش الحان قاری بھی تھے۔‘‘سنیل گپتا کا کہنا ہے کہ رمضان کے دوران دبنگ قیدیوں میں بھی خاصی عاجزی آتی ہے اور وہ قیدی بھی اپنی رہائی کی دعائیں مانگتے ہیں، جن کے خیال میں وہ بے قصور ہیں۔ اس دوران ایک طرح سے تہاڑ جیل کی فضا بالکل تبدیل ہو جاتی ہے۔رمضان اور عید کے موقع پر یہ جیل ایک الگ ہی تصویر پیش کرتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
78