اسلام آباد : بھارت آبادی کے اعتبار سے چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کے لیے تیار ہے۔ رواں ماہ بھارت دنیا کی آبادی والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ ساتھ ہی بھارتی مسلم خاندانوں میں شرح پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات پروگرام اور آبادیاتی استحکام کا اشارہ دیتے ہیں۔روئٹرز نے اس سلسلے میں چھ مسلمان مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ سات کمیونٹی لیڈرز، ماہرین اور اسلامی اسکالرز سے بات چیت کی۔ ان تمام افراد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بھارتی باشندوں میں آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے بیداری میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور سے مسلمانوں میں برتھ کنٹرول اور فیملی پلاننگ کے بارے میں شعور و آگاہی بڑھی ہے۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادیجنوبی ایشا کی جوہری قوت بھارت میں آبادی کے اعتبار سے مسلم دوسری سب سے بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یعنی بھارت کی کل آبادی 1.2 بلین ہے، جس کا 14.2 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بھارت میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ 2011ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق 79.8 فیصد کے ساتھ ملک کی اکثریتی آبادی ہندوؤں کی ہی تھی۔2021ء کی مردم شماری میں تاخیر ہوئی تاہم اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس ماہ بھارت کی آبادی 1.42 بلین تک پہنچنے کا قوی امکان ہے۔ بھارت کے نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق اس ملک میں مسلم خاندانوں میں گزشتہ 15 برسوں میں شرح پیدائش میں واضح کمی آئی ہے۔ 2019ء تا 2021ء فی مسلم خاتون بچوں کی پیدائش اوسطاً 2.4 رہی جبکہ 2015ء تا 2016ء یہ شرح 2.6 اور اُس سے پہلے 2005ء اور 2006ء میں 3.4 تھی۔مدھیہ پردیش، مردوں کی لازمی نس بندی کی خواہش اور بی جے پیاگرچہ بھارت کے مسلم گھرانوں میں شرح پیدائش 2.4 ہونے کے ساتھ اب بھی باقی تمام برادریوں سے زیادہ ہے جبکہ مسلم گھرانوں میں بچوں کی پیدائش میں کمی کی شرح 1992ء تا 1993ء کے مقابلے میں 4.4 فیصد سے نصف ہو چکی ہے۔اسلام اور برتھ کنٹرولقدامت پسند مسلم برادری میں کچھ مسلمان مبلغوں، یا آئمہ نے تبدیلی لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں لکھنؤ عیدگاہ کے امام خالد رشید کہتے ہیں، ”مسلمانوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسلام مانع حمل اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ انہوں نے اسلام کے مقدس قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شریعت خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ غلط قسم کے تصورات کو دور کریں، بچے کی پیدائش پر قابو پانے یا مانع حمل اقدامات کے استعمال کی اجازت دیں۔‘‘امام خالد رشید نے بتایا کہ انہوں نے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آگاہی مہم چلائی، پروگرام شروع کیے، اپیلیں اور تقاریر کیں تاکہ عام مسلمانوں کو وہ بتایا جائے، جو اس بارے میں شریعت کہتی ہے۔ ماہرین نے کہا کہ شہروں سے باہر رہنے والے تعلیم یافتہ، غریب مسلمانوں کو اس آگاہی مہم کا ہدف بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔مزید پورا ہونے والی ضروریاتبھارت کی ایک رضاکارانہ تنظیم پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پونم متریجا کے بقول، ’’اب غریب مسلمانوں میں بھی رویے بدل رہے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل میں۔‘‘ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت عامہ کا نظام اب شہریوں کی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے کے قابل نہیں۔ لوگوں میں اب برتھ کنٹرول یا مانع حمل ذریعوں، خدمات اور ان کی افادیت کے بارے میں آگاہی ہے، تاہم حکومت کی طرف سے تمام تر ضروریات پورا کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ ان ضروریات کو پوری نہ ہونے والی ضرورت بھی کہا جاتا ہے۔
74