کراچی : اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسپورٹرز کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ ایکسپوٹرز 30 اپریل تک برآمدات کی رقوم بغیر کٹوتی لاسکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مقررہ تاریخ سے 30 دن بعد تک ایکسپورٹ کی رقوم لانے پر 3 فیصد کٹوتی ہوگی، اسی طرح 30 سے 60 روز بعد ایکسپورٹس رقوم لانے پر 6 فیصد کٹوتی اور 30 اپریل سے 60 روز بعد ایکسپورٹس رقوم پر 9 فیصد کٹوتی ہوگی۔پاکستان کارپٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے برآمدکی گئی مصنوعات کی بیرون ملک سے پے منٹ کی مقررہ مدت کے بعد وصولی پر 3 سے 9 فیصد تک کٹوتی کے فیصلے پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سخت قواعد و ضوابط سے پہلے سے نا مساعد حالات سے دوچار صنعت کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی، برآمدی معاہدوں پر بیرون ملک سے 120 دن میں لازمی پیمنٹ کی ادائیگی کی شرط ختم کرکے صنعت کی حیثیت کوخصوصی صنعت کے طو رپر بحال کیا جائے، جس میں 180 سے 270 دنوں تک کی رعایت ہے۔پاکستان کارپٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین عثمان اشرف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ریلائزیشن آف ایکسپورٹ پروسیڈز کے حوالے سے جاری سرکلر پر گورنر اسٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پاکستان کارپٹ مینوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کئی دہائیوں سے پاکستانی قالین کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے تاہم اسٹیٹ بینک کے سخت ہوتے ہوئے قواعد و ضوابط، دیگر مسائل اور رکاوٹوں نے اس صنعت کی برآمد کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت پہلے ہی شدید بحران سے دوچار ہے اور اس طرح کے سرکلر جاری کرکے اس کیلئے مزید مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔انہوں نے سرکلر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں برآمد کنندگان کوبرآمدی رقم کی تاخیر سے وصولی سے متعلق کٹوتی تجویز کی گئی جو اس صنعت کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گی، ایکسپورٹ پروسیڈ کی تاخیر میں 30 دنوں تک 3 فیصد، 31 سے 60 دنوں کی تاخیر پر6 فیصد اور60 روز سے زائد پر 9 فیصد کٹوتی برآمدی صنعتوں پر بوجھ ہے، غیر استعمال شدہ پیشگی ادائیگیوں کا مسئلہ بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے اس لئے مطالبہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر تجارت نوید قمر اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد ملاقات کے لئے وقت دیں۔
77